Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Ash Shura Ayat 27 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(62) | Tarteeb e Tilawat:(42) | Mushtamil e Para:(25) | Total Aayaat:(53) |
Total Ruku:(5) | Total Words:(983) | Total Letters:(3473) |
{وَ لَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ: اور اگر اللہ اپنے سب بندوں کیلئے رزق وسیع کردیتا تو ضرور زمین میں فساد پھیلاتے۔}اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو غریب اور بعض کو مالدار بنانے کی حکمت بیان فرمائی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کیلئے رزق وسیع کردیتا تو وہ ضرور زمین میں فساد پھیلاتے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے تمام بندوں کا رزق ایک جیساکر دے تو یہ بھی ہوسکتا تھا کہ لو گ مال کے نشے میں ڈوب کر سرکشی کے کام کرتے اور یہ بھی صورت ہوسکتی تھی کہ جب کوئی کسی کا محتاج نہ ہو گا تو ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنا ناممکن ہو جائے گا جیسے کوئی گندگی صاف کرنے کے لئے تیار نہ ہو گا،کوئی سامان اٹھانے پر راضی نہ ہو گا،کوئی تعمیراتی کاموں میں محنت مزدوری نہیں کرے گا، یوں نظامِ عالَم میں جو بگاڑ پیدا ہو گااسے ہر عقلمند با آسانی سمجھ سکتاہے۔
اللہ تعالیٰ کے اَفعال حکمتوں اور مَصلحتوں سے خالی نہیں:
ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اگرچہ بندوں کی بہتری اور فائدے کے لئے اَفعال کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں ، ا س کے باوجود اللہ تعالیٰ کے اَفعال حکمتوں اور مَصلحتوں سے خالی نہیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے حال کو جانتا ہے کہ اگر ا س پر دنیا کا رزق وسیع کر دیا تو یہ وسعت بندے کے اعمال کو فاسد کر دے گی،اس لئے اس پر رزق تنگ کر دینے میں ہی اسی کی مَصلحت اور بہتری ہے، لہٰذا کسی پر رزق تنگ کر دینے میں اس کی توہین نہیں اور نہ ہی کسی پر رزق کشادہ کر دینا اس کی فضیلت ہے۔مزید فرماتے ہیں’’تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر مَوقوف ہیں ،وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ اپنے کسی فعل پر جواب دِہ نہیں کیونکہ وہ علی الاطلاق مالک ہے۔(قرطبی، الشوری، تحت الآیۃ: ۲۷، ۸ / ۲۱، الجزء السادس عشر، ملخصاً)
امیری ،غریبی،بیماری اور تندرستی کی بہت بڑی حکمت:
ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ امیر،کچھ لوگ غریب،کچھ بیمار اور کچھ تندرست ہیں ،اس میں یقینا اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں ، یہاں لوگوں کے احوال میں اس فرق کی ایک بہت بڑی حکمت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت انسرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ا ن کے ایمان کی بھلائی مالداری میں ہے ،اگر میں انہیں فقیر کر دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی فقیری میں ہے،اگر میں انہیں مالدار بنا دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی صحت مند رہنے میں ہے ،اگر میں انہیں بیمار کر دوں تو اس بنا پر ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔بے شک میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی بیمار رہنے میں ہے،اگر میں انہیں صحت عطا کر دوں تو اس کی وجہ سے ان کا ایمان خراب ہو جائے گا۔ میں اپنے علم سے اپنے بندوں کے معاملات کا انتظام فرماتا ہوں ،بے شک میں علیم و خبیر ہوں۔(حلیۃ الاولیاء، الحسین بن یحی الحسینی، ۸ / ۳۵۵، الحدیث: ۱۲۴۸۵)
اسی طرح کی ایک حدیث پاک آیت نمبر17کی تفسیر میں بھی گزر چکی ہے ،ان اَحادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کی امیری،غریبی،بیماری اور تندرستی حکمت کے عین مطابق ہے اور اُخروی اعتبار سے بہت بڑے فائدے کی حامل ہے لہٰذا جسے اللہ تعالیٰ نے دولت عطا کی اسے چاہئے کہ وہ ا س دولت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں خرچ کرے ۔جسے اللہ تعالیٰ نے غریب رکھااسے چاہئے کہ وہ اپنی غربت اور تنگدستی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اسی کی بارگاہ سے صبر کرنے کی توفیق مانگے اور آسانی طلب کرتا رہے ۔جو تندرست ہے وہ اس نعمت کو غنیمت جانے اور اپنی جسمانی صحت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت زیادہ کرنے کا فائدہ اٹھائے، اور جوبیمار ہے وہ بیماری کو اپنے حق میں مصیبت نہ سمجھے بلکہ یہ ذہن بنائے کہ اس بیماری کے ذریعے میری خطائیں معاف ہو رہی ہیں اور میرے ایمان کو تباہی سے بچایا جا رہا ہے اور یہ دونوں چیزیں آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں بہت کام آنے و الی ہیں ۔ اس سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دل اور دماغ کو راحت نصیب ہو گی۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.