Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Ghafir Ayat 55 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(60) | Tarteeb e Tilawat:(40) | Mushtamil e Para:(24) | Total Aayaat:(85) |
Total Ruku:(9) | Total Words:(1345) | Total Letters:(5040) |
{فَاصْبِرْ: توتم صبر کرو۔} اس سے پہلی آیات میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کی مدد فرمائے گا اور اب یہاں سے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کفار کی طرف سے پہنچنے والی ایذاؤں پر صبر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کی طرف سے پہنچنے والی ایذا پر صبر کرتے رہیں ،بے شک اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور اس نے جس طرح پہلے رسولوں کی مدد فرمائی اسی طرح وہ آپ کی مدد بھی فرمائے گا، آپ کے دین کو غالب کرے گا اور آپ کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا نیز آپ اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے گناہوں کی معافی طلب کریں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر ہمیشہ قائم رہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ صبح شام اللہ تعالیٰ کی پاکی بولنے سے پانچوں نمازیں مراد ہیں ۔( تفسیر کبیر ، المؤمن ، تحت الآیۃ : ۵۵، ۹ / ۵۲۵ ، خازن، حم المؤمن، تحت الآیۃ: ۵۵، ۴ / ۷۴، مدارک، غافر، تحت الآیۃ: ۵۵، ص۱۰۶۲، ملتقطاً)
{وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ: اور اپنوں کے گناہوں کی معافی چاہو۔} یاد رہے کہ آیت کے اس حصے میں تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ہی خطاب ہونا مُتعَیّن نہیں بلکہ ا س کا احتمال ہے اور اس صورت میں اس کے جو معنی ہوں گے ان میں سے ایک اوپر بیان ہو اکہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی امت کے گناہوں کی معافی چاہیں ۔ دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اگر بالفرض کوئی مَعصِیَت واقع ہو تو اس سے استغفار واجب ہے ،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :(سورہِ مومن اور سورہِ محمد کی) دونوں آیتِ کریمہ میں صیغۂ اَمر ہے اور امر اِنشا ہے اور اِنشا وقوع پر دال نہیں تو حاصل اس قدر کہ بفرضِ وقوع استغفار واجب ،نہ یہ کہ مَعَاذَاللہ واقع ہوا،جیسے کسی سے کہنا ’’اَکْرِمْ ضَیْفَکَ‘‘ اپنے مہمان کی عزت کرنا،اس سے یہ مراد نہیں کہ اس وقت کوئی مہمان موجود ہے ،نہ یہ خبر ہے کہ خواہی نخواہی کوئی مہمان آئے گا ہی، بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یوں کرنا۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۴۰۰)
اور اس آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس میں خطاب ہر سامع سے ہو،جیسا کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :سورۂ مومن و سورۂ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی آیات ِکریمہ میں کون سی دلیل قطعی ہے کہ خطاب حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے ہے، مومن میں تو اتنا ہے ’’وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ‘‘ اے شخص اپنی خطا کی معافی چاہ۔ کسی کا خاص نام نہیں ، کوئی دلیل تخصیصِ کلام نہیں ،قرآنِ عظیم تمام جہاں کی ہدایت کے لیے اترا نہ صرف اس وقت کے موجودین (کی ہدایت کے لئے) بلکہ قیامت تک کے آنے والوں سے وہ خطاب فرماتا ہے ’’ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ‘‘ نماز برپا رکھو۔ یہ خطاب جیسا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے تھا ویسا ہی ہم سے بھی ہے اور تا قیامِ قیامت ہمارے بعد آنے والی نسلوں سے بھی۔۔۔ یونہی دونوں سورہِ کریمہ میں کافِ خطاب ہر سامع کے لیے ہے کہ اے سننے والے اپنے اور اپنے سب مسلمان بھائیوں کے گناہ کی معافی مانگ۔( فتاوی رضویہ، ۲۹ / ۳۹۸-۳۹۹)
نوٹ:اس مسئلے سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے لئے فتاویٰ رضویہ ،جلد 29،صفحہ394تا401کا مطالعہ فرمائیں ۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.