Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Luqman Ayat 18 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(57) | Tarteeb e Tilawat:(31) | Mushtamil e Para:(21) | Total Aayaat:(34) |
Total Ruku:(4) | Total Words:(612) | Total Letters:(2136) |
{وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ: اورلوگوں سے بات کرتے وقت اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کر۔} یہاں سے حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی وہ نصیحت ذکر کی جا رہی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو باطنی اعمال کے حوالے سے فرمائی، چنانچہ فرمایا کہ اے میرے بیٹے!جب آدمی بات کریں تو تکبر کرنے والوں کی طرح انہیں حقیر جان کر ان کی طرف سے ر خ پھیرلینے والا طریقہ اختیار نہ کرنا بلکہ مالدار اور فقیر سبھی کے ساتھ عاجزی و اِنکساری کے ساتھ پیش آنااور زمین پر اکڑتے ہوئے نہ چلنا، بیشک اکڑنے والا اور تکبر کرنے والا کوئی بھی شخص اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ۔( مدارک، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۸، ص۹۱۹، خازن، لقمان، تحت الآیۃ: ۱۸، ۳ / ۴۷۱، ملتقطاً)
فخر اور اِختیال میں فرق:
یاد رہے کہ اندرونی عظمت پر اکڑنا فخر ہے جیسے علم ، حسن ، خوش آوازی ، نسب ، وعظ وغیر ہ اور بیرونی عظمت پر اکڑنا اختیا ل ہے جیسے مال ، جائیداد ، لشکر ، نو کر چاکر وغیرہ،مراد یہ ہے کہ نہ ذاتی کمال پر فخر کرو اور نہ بیرونی فضائل پر اتراؤ،کیونکہ یہ چیزیں تمہاری اپنی نہیں بلکہ ربِّ کریم عَزَّوَجَلََّ کی عطا کی ہوئی ہیں اور وہ جب چاہے واپس لے لے ۔
کسی شخص کو حقیر نہیں جاننا چاہئے:
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص امیر ہو یا غریب اسے حقیر نہیں جاننا چاہئے بلکہ جس سے بھی ملاقات ہو تواس کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہئے اور اچھے انداز میں اس سے بات چیت کرنی چاہئے۔غریبوں کو حقیر جان کر ان سے منہ موڑنا اور ان سے بات چیت کے دوران ایسا انداز اختیار کرنا جس میں حقارت کا پہلو نمایا ں ہو اسی طرح امیر لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا سب تکبر کی علامات ہیں ،ان سے ہر ایک کو بچنا چاہئے ۔حدیث ِپاک میں بھی اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے،چنانچہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو،ایک دوسرے سے حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرواورسب اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤاورکسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کوتین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔( صحیح بخاری، کتاب الادب، باب ما ینہی عن التحاسد والتدابر، ۴ / ۱۱۷، الحدیث: ۶۰۶۵)
ترغیب کے لئے یہاں لوگوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کے چند پہلو ملاحظہ ہوں ، چنانچہ قاضی عیاض مالکی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لوگوں سے اُلفت فرماتے اور ان سے نفرت نہ کرتے تھے۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہر قوم کے با اَخلاق فرد کی عزت فرماتے اور اسے اس کی قوم پر حاکم مقرر کر دیتے تھے۔ (بداخلاق) لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا خوف دلاتے،ان سے احتراز فرماتے، نہ یہ کہ ان سے منہ پھیر لیں اور بد اخلاقی سے پیش آئیں ۔آپ کی بارگاہ میں حاضر کوئی شخص یہ گمان نہیں کرتا تھا کہ کوئی اور بھی اس سے بڑھ کرآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نزدیک عزت والا ہے۔جو شخص بھی آپ کےپاس بیٹھتا یا کسی ضرورت سے زیادہ قریب ہو تا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صبر فرماتے یہاں تک کہ وہ شخص خود ہی اٹھ کر چلا جاتا۔جو شخص بھی اپنی حاجت کے لئے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کرتا تو اسے دے کر بھیجتے یا اس سے نرم بات کرتے۔غرض یہ کہ آپ کا اخلاق اس قدر وسیع تھا کہ وہ تمام لوگوں کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔( الشفا، القسم الاول، الباب الثانی، فصل وامّا حسن عشرتہ۔۔۔ الخ، ص۱۲۰، الجزء الاول)
نیز سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ جب سیّد العالمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجد ِنبوی میں تشریف فرما ہوتے تواپنے دربار میں سب سے پہلے حاجت مندوں کی طرف تو جہ فرماتے اور سب کی درخواستوں کو سن کر ان کی حاجت روائی فرماتے اور قبائل کے نمائندوں سے ملاقاتیں فرماتے اوراس دوران تمام حاضرین کمالِ ادب سے سر جھکائے رہتے تھے۔آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں آنے والوں کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی، امیر و فقیر، شہری اور دیہاتی سب قسم کے لوگ حاضرِ دربار ہوتے اور اپنے اپنے لہجوں میں سوال و جواب کرتے ۔کوئی شخص اگر بولتا تو خواہ وہ کتنا ہی غریب و مسکین کیوں نہ ہو مگر دوسرا شخص اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا امیر کبیر ہو اس کی بات کاٹ کر بول نہیں سکتا تھا۔جو لوگ سوال و جواب میں حد سے زیادہ بڑھ جاتے تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کمالِ حِلم سے برداشت فرماتے اور سب کو مسائل اور اسلامی احکام کی تعلیم و تلقین اوروعظ ونصیحت فرماتے رہتے۔حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبائل سے آنے والے وفدوں کے اِستقبال، اوران کی ملاقات کا خاص طورپر اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ ہر وفد کے آنے پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہایت ہی عمدہ پوشاک زیب ِتن فرما کر کاشانۂ اَقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بھی حکم دیتے تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں ،پھر ان مہمانوں کو اچھے سے اچھے مکانوں میں ٹھہراتے اور ان لوگوں کی مہمان نوازی اور خاطرِ مُدارات کا خاص طورپرخیال فرماتے تھے اور ان مہمانوں سے ملاقات کے لئے مسجد ِنبوی میں ایک ستون سے ٹیک لگا کر نشست فرماتے ،پھر ہر ایک وفد سے نہایت ہی خوش روئی اور خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو فرماتے اور ان کی حاجتوں اور حالتوں کو پوری توجہ کے ساتھ سنتے اور پھر ان کو ضروری عقائد و اَحکامِ اسلام کی تعلیم و تلقین بھی فرماتے اور ہر وفد کو ان کے درجات و مَراتب کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ نقد یا سامان بھی تحائف اور انعامات کے طور پر عطا فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں لوگوں کو حقیر جاننے اور ان سے حقارت آمیز سلوک کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔
اکڑ کر چلنے کی مذمت:
آیت میں اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا گیا ،اس مناسبت سے یہاں اکڑ کر چلنے کی مذمت پر مشتمل دو اَحادیث ملاحظہ ہوں :
(1)…حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو آدمی اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اکڑکر چلتا ہے،وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہما، ۲ / ۴۶۱، الحدیث: ۶۰۰۲)
(2)…حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب میری امت اکڑ کر چلنے لگے گی اور ایران و روم کے بادشاہوں کے بیٹے ان کی خدمت کرنے لگیں گے تو اس وقت شریر لوگ اچھے لوگوں پر مُسَلَّط کر دئیے جائیں گے۔( ترمذی، کتاب الفتن، باب-۷۴، ۴ / ۱۱۵، الحدیث: ۲۲۶۸)
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کواس مذموم فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.