Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Luqman Ayat 34 Urdu Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(57) | Tarteeb e Tilawat:(31) | Mushtamil e Para:(21) | Total Aayaat:(34) |
Total Ruku:(4) | Total Words:(612) | Total Letters:(2136) |
{اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ: بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے۔} شانِ نزول : یہ آیت حارث بن عمرو کے بارے میں نازل ہوئی جس نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر قیامت کا وقت دریافت کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ میں نے کھیتی بوئی ہے، مجھے خبر دیجئے کہ بارش کب آئے گی ؟اور میری عورت حاملہ ہے، مجھے بتائیے کہ اس کے پیٹ میں کیا ہے ،لڑکایا لڑکی ؟نیزیہ تو مجھے معلوم ہے کہ کل میں نے کیا کیا،البتہ مجھے یہ بتائیے کہ آئندہ کل کو میں کیا کروں گا؟ نیز میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں کہاں پیدا ہوا ،لیکن مجھے یہ بتائیے کہ میں کہاں مروں گا؟ اس کے جواب میں یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔ (روح البیان، لقمان، تحت الآیۃ: ۳۴، ۷ / ۱۰۳)
آیت ’’اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ‘‘ سے متعلق اہم کلام:
اس آیت میں پانچ چیزوں کے علم کی خصوصیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیان فرمائی گئی اور مخلوق کو علمِ غیب عطا کئے جانے کے بارے میں سورہِ جن کی آیت نمبر26اور27 میں ارشاد ہوا:
’’عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْهِرُ عَلٰى غَیْبِهٖۤ اَحَدًاۙ(۲۶) اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ‘‘
ترجمۂکنزُالعِرفان: غیب کا جاننے والا اپنے غیب پر کسی کو مکمل اطلاع نہیں دیتا۔ سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ علم ِغیب آیت میں مذکور پانچ چیزوں سے متعلق ہو یا کسی اور چیز کے بارے میں،ذاتی طور پر اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے بتادینے سے مخلوق بھی غیب جان سکتی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ ذاتی علم غیب اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے بتانے سے معجزہ اور کرامت کے طور پرعطا ہوتا ہے ، یہ اس اِختصاص کے مُنافی نہیں جو آیت میں بیان ہوا بلکہ اس پر کثیر آیتیں اور حدیثیں دلالت کرتی ہیں ، بارش کا وقت اور حمل میں کیا ہے اور کل کو کیا کرے گا اور کہاں مرے گا ان اُمور کی خبریں اَنبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اَولیاء ِعظام رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے بکثرت دی ہیں اور قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ،جیسے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرشتوں نے حضرت اسحق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیدا ہونے کی اور حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت یحییٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیدا ہونے کی اور حضرت مریم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پیدا ہونے کی خبریں دیں ،تو ان فرشتوں کو بھی پہلے سے معلوم تھا کہ ان حملوں (حمل کی جمع) میں کیا ہے اور ان حضرات کو بھی جنہیں فرشتوں نے اطلاعیں دی تھیں اور ان سب کا جاننا قرآنِ کریم سے ثابت ہے، تواس آیت کے معنی قطعاً یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیرکوئی نہیں جانتا ۔ اس کے یہ معنی مراد لینا کہ اللہ تعالیٰ کے بتانے سے بھی کوئی نہیں جانتا، محض باطل اور صَدہاآیات و اَحادیث کے خلاف ہے ۔
نوٹ:اس آیت اور ا س جیسی دیگر آیات سے متعلق تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی 26ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ ’’اَلصَّمْصَامْ عَلٰی مُشَکِّکٍ فِیْ آیَۃِ عُلُوْمِ الْاَرْحَامْ‘‘ (علوم ِاَرحام سے تعلق رکھنے والی آیتوں سے متعلق کلام) کا مطالعہ فرمائیں ۔
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.