Home ≫ Al-Quran ≫ Surah Sad Ayat 35 Translation Tafseer
Tarteeb e Nuzool:(38) | Tarteeb e Tilawat:(38) | Mushtamil e Para:(23) | Total Aayaat:(88) |
Total Ruku:(5) | Total Words:(818) | Total Letters:(3020) |
{قَالَ: عرض کی۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اِنْ شَآءَ اللہ کہنے کی بھول پراِستغفار کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور بارگاہِ الہٰی میں عرض کی: اے میرے رب !مجھے بخش دے۔علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’(مُستحب کاموں کے نہ کر سکنے پر بھی) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عاجزی اور اِنکساری کا اظہار کر کے اس پر مغفرت طلب کرنا انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صالحین کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک ادب ہے تاکہ ان کے مقام ومرتبہ میں ترقی ہو ۔( البحرالمحیط، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۷ / ۳۸۱)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب استغفار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الیوم واللیلۃ، ۴ / ۱۹۰، الحدیث: ۶۳۰۷)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’بعض اوقات (کسی مقرب) انسان سے افضل اور اولیٰ کام ترک ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ مغفرت طلب کرنے کا محتاج ہوتا ہے کیونکہ نیک بندوں کی نیکیاں مُقَرَّب بندوں کے نزدیک ان کے اپنے حق میں برائیوں کا درجہ رکھتی ہیں ۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۹ / ۳۹۴)
یعنی عام نیک آدمی جو نیک عمل کرتا ہے ، مُقَرَّب بندہ اس سے بہت بڑھ کر عمل کرتا ہے ، اگر وہ بھی عام نیک آدمی جیسا ہی عمل کرے تو اسے وہ اپنے حق میں برائی سمجھتا ہے کیونکہ اس کا مرتبہ یہ تھا کہ وہ اس سے بڑھ کر عمل کرتا۔
{وَهَبْ لِیْ مُلْكًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْ : اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرماجو میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو۔} حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پہلے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی ،اس کے بعد ایسی سلطنت کی دعا مانگی جو ان کے بعد کسی کو لائق نہ ہو۔
بھلائیوں کے دروازے کھلنے کا سبب :
اس سے معلوم ہو اکہ (دعا میں ) دینی مَقاصد کو دُنْیَوی مقاصد پر مُقَدّم رکھنا چاہئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا دنیا میں بھلائیوں کے دروازے کھلنے کا سبب ہے۔حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی اپنی امت کو اس کی تلقین کی،چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرماتے ہیں :
’’فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا‘‘(نوح:۱۰۔۱۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو میں نے کہا: (اے لوگو!) اپنے رب سے معافی مانگو، بیشک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے۔ وہ تم پر موسلا دھار بارش بھیجے گا۔ اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا۔
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے فرمایا:
’’وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ-لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًاؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكَ‘‘(طہ:۱۳۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی نماز پر ڈٹے رہو۔ ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں مانگتے (بلکہ) ہم تجھے روزی دیں گے۔( تفسیرکبیر، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ۹ / ۳۹۴)
یاد رہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو بے مثل سلطنت طلب کی وہ مَعَاذَ اللہ کسی حسد کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس سے مقصود یہ تھا کہ وہ سلطنت آپ کے لئے معجزہ ہو۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: ۳۵، ص۱۰۲۲)
Copyright © by I.T Department of Dawat-e-Islami.