Book Name:Faizan e Imam Ghazali
ہے۔حضرت سیِّدُناتاجُ الدِّین عبدالوھاب سُبکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی کے والدِماجد عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَاجِد نیک اور متقی انسان تھے۔اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے ،یعنی اُون کات کر فروخت کرتے تھے ۔حضراتِ فُقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کی مَجالس میں حاضِر ہوتے، ان کے ساتھ اچھا سُلُوک کرتے،حتّی الْمَقْدُور اُن پر خرچ کرتے اوران کی مَجالس میں خوفِ خُداسے گریہ وزاری (یعنی رویا )کرتے اوراللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دُعا کرتے کہ ’’مجھے بیٹا عطاکر اوراسے فقیہ(عالِم) بنا۔‘‘نیز اسی طرح مَجالسِ وَعْظ میں حاضر ہوتے۔ وہاں بھی روروکر اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دُعاکرتے کہ’’مجھے بیٹا عطاکر اوراسے واعظ (مُبَلّغ )بنا۔‘‘اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان کی یہ دونوں دُعائیں قَبول فرمائیں۔(طبقات الشافعیۃ الکبری، ج۶، ص۱۹۴)
حَضْرتِ سَیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی کے والدِ مُحترمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اگرچہ خُودباقاعدہ عالمِ دین نہ تھے، لیکن آپ کو علمِ دین کی اَہَمیَّت کا احساس تھا،اسی لیے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دِلی خواہش تھی کہ اُن کے دونوں صاحبزادے محمد غزالی اوراحمدغزالی رَحِمَہُمَا اللہُ تَعَالیٰ زیورِ علمِ شریعت و طریقت سے آراستہ ہوں۔ابھی سَیِّدُنا امام غزالی اورآپ کے بھائی کم عُمرہی تھے کہ ۴۶۵ھ میں والدِمُحترم وِصال فرماگئے۔اِنتقال سے پہلے اُنہوں نے اپنے ایک صُوفی دوست حَضْرتِ سیِّدُنا ابُوحامداحمد بن محمد راذکانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کووصیَّت کی تھی کہ ’’میرا تمام اَثاثہ میرے ان دونوں بیٹوں کی تعلیم وپروَرِش پر خرچ کردیجئے گا۔‘‘وصیَّت کے مُطابق ان کے والدِگرامی کا سرمایہ ان کی تعلیم و پروَرِش پر صَرف کردیاگیا۔( اتّحاف السادۃ المتّقین، مقدمۃ الکتاب، ج۱، ص۹)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب! صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ حُجَّۃُ الْاِسْلام حضرت سَیِّدُنا امام محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی کے والدِ گرامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنی اَولاد کو علمِ دین سے آراستہ کرنے کا کس