Book Name:Faizan e Imam Ghazali
قدر شوق تھا کہ مرنے سے پہلے اپنے دوست کو اس کی وَصیَّت کی اورایک ہم ہیں کہ اس ترقّی یافتہ دَور میں جبکہ علم ِ دین حاصل کرنا اِنْتہائی آسان ہو چُکا ہے،اس کے باوُجُود بھی حُصُولِ علم کیلئے نہ توخود کوشش کرتے ہیں اورنہ ہی اپنے بچوں کی بہترتعلیم وتربیت کیلئےانہیں دینی عُلوم کے زیورسے آراستہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ایک تعداد ایسی بھی ہے جو صِرف دُنیاوی عُلُوم وفُنون ہی سکھاتے ہیں، اگر بچہ ذرا ذَہین ہوتواسے ڈاکٹر،اِنجینئر ،پروفیسر ، کمپیوٹر پروگرامر بنانے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے اس کی دِینی تربیت سے مُنہ موڑکر مَغْربی تہذیب کے نُمائندہ اِداروں کے مخلوط ماحول میں تعلیم دِلوانے میں کوئی عار (شرم ) محسوس نہیں کی جاتی بلکہ اسے ’’اعلیٰ تعلیم ‘‘کی خاطر کُفار کے حوالے کرنے سے بھی دَریغ نہیں کیاجاتا ۔ یادرکھئے!اگرہم تربیتِ اَوْلاد کی اَہم ذِمّہ داری کو بوجھ تصوُّر کر کے اس سے غَفْلت برتتے رہے اور بچوں کو ان خطرناک حالات میں آزاد چھوڑ دیا تو نَفْس وشیطان انہیں اپنا آلہ کار بنا سکتے ہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ نَفْسانی خواہشات کی آندھیاں انہیں صحرائے عِصْیاں(یعنی گُناہوں کے صحرا)میں گُم کر دیں اوروہ عُمرِ عزیز کے چار دن آخرت بنانے کی بجائے دُنیا جَمْع کرنے میں صَرف کردیں اور یُوں گُناہوں کا اَنبار لئے وادیٔ موت کے کنارے پہنچ جائیں۔رَحْمتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ شاملِ حال ہوئی تو مرنے سے پہلے توبہ کی توفیق مل جائے گی وگرنہ دُنیا سے کفِّ اَفسوس مَلتے ہوئے نکلیں گے اورقبر کے گڑھے میں جاسوئیں گے۔سوچئے تو سہی کہ جب بچوں کی مدنی تربیت نہیں ہوگی تو مُعاشرے کا بگاڑ دُور کرنے کے لئےوہ کیا کردار اَدا کرسکیں گے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اگرہم اپنی اِصْلاح ،اپنے بچوں کی مدنی تربیت اور انہیں بچپن ہی سے فکر ِآخرت کا ذِہن دینا چاہتے ہیں ،تو دعوتِ اسلامی کے ’’مَدَنی ماحول‘‘سے وابَستہ ہوجائیے اوراپنی اَوْلاد کی بہترتعلیم وتربیت کیلئے مدارسُ المدینہ،جامعاتُ المدینہ اوردارالمدینہ میں داخل کروادیجئے۔اَوْلاد کی اِسْلامی تربیت کے بارے میں مُفید مَعْلُومات حاصل کرنے کیلئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ دو