Hasnain Karimain ki Shan o Azmat

Book Name:Hasnain Karimain ki Shan o Azmat

تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے اورفرمایا کہ اسماءمیرے فرزندکولاؤ،حضرت ِاسماءرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے (امامِ حسن کو) ایک کپڑے میں(لپیٹ کر)حُضور سَیِّد ِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت میں حاضر کیا۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے داہنے کان میں اَذان اوربائیں میں تکبیر فرمائی اورحضرتِ سَیِّدُنا مولیٰ علیُّ الْمُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمسے دریافت فرمایا: تم نے اس فرزندِ اَرْجمند کاکیا نام رکھا ہے؟عرض کی:یَارَسُوْلَ اللہ!صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میری کیا مَجال کہ بے اِذْن واِجازت نام رکھنے پر سَبْقَت کرتا،لیکن اب جو دریافت فرمایاہے تو میرا خیال ہے ’’حَرْب ‘‘نام رکھاجائے،باقی حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مُختار ہیں۔تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ان کانام حَسن رکھا۔(سوانحِ کربلا ص۹۲ملخصاً)

وہ حسن مُجتبیٰ سیدُ الاسخیاء

راکبِ دوشِ عزّت پہ لاکھوں  سلام

(حدائقِ بخشش)

شعر کی وضاحت:

وہ امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُجو کہ سخیوں کے سردار ہیں،جو کہ اپنے نانا جان،محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیارے کندھوں پر سُوار ہوتے تھے،اُن کی ذاتِ مبارک پرلاکھوں سلام۔

آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کےچھوٹے بھائی سَیِّدُالشُّہَداء،راکبِ دَوشِ مُصْطفیٰ، حضرتِ سَیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکی وِلادت 5شعبانُ  المعظم سن 4 ہجری کو مدینۂ مُنوَّرہ زَادَ ہَا اللہُ شَرَفًاوَّ تَعۡظِیۡمًامیں ہوئی۔آپ کا نام ،حُضُور پرنور،شافع ِ یومُ النُّشور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے’’حُسین‘‘ اور ’’شبیر‘‘ رکھا جبکہ آپ کی کُنْیَت’’اَبُوعَبدُاللہ‘‘اورآپ کالَقب بھی’’سِبۡطُ رَسُوۡلِ اللہِ(رَسُوۡلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نَواسے)‘‘اور’’رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل‘‘(رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پھول) ہے اوراپنے برادرِاَکْبرکی طرح آپ بھی جنَّتی جوانوں کے سردار ہیں۔ ( اسد الغابة،باب الحاء والحسین،۱۱۷۳۔ الحسین بن علی،ص۲۵،۲۶ملتقطاًوسیر اعلام النبلاء،۲۷۰۔الحسین الشہید...الخ، ج۴،ص۴۰۲۔۴۰۴)