Book Name:Auliya Allah Ki Shan
پر ہمارے نبی محمد ِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتنہاجلوہ افروز ہیں اور دیگرتمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جیسے حضرت ابراہیم،حضرت عیسیٰ، حضرت نوح اور حضرت موسیٰ (اور ان کے علاوہ دوسرے انبیائے کرام) عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسب زمین پربیٹھے ہوئے ہیں ۔ میں وہاں ٹھہر گیا اور ان مُقَدَّس حضرات کی گفتگو سننے لگا۔حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےعرض کِیاکہ حضور!آپ نے فرمایاکہ میری اُمّت کے علماء، انبیائے بنی اسرائیل کی مانند ہیں (یعنی دین کی تبلیغ و اشاعت کرنے کے اعتبار سے لہٰذا دین کی جتنی خدمت علماء اسلام نے کی اتنی خدمت کسی دین کے عالموں نے اپنے دین کی نہ کی۔)تو آپ اُن میں سے کوئی ایک عالم دکھائیں تو حضورِ اکرم نبیِ مکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے امام محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی طرف اشارہ فرمایا حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنےان سے ایک سوال کِیا، امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اس کے دس (10)جواب دیئے۔ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے فرمایا کہ جواب سوال کے موافق ہونا چاہئے ایک سوال کا ایک جواب دینا تھا آپ نے دس (10)جواب کیوں دیئے ؟ حضرت سَیِّدُنا امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے عرض کیا: یا نبیَّاللہ! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ سے بھی ایک ہی سوال کیاتھا جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے کہ ﴿1ãñ,u¤6﴾(پارہ:۱۶،طٰہٰ:۱۷)تَرْجَمۂ کنزالایمان:اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ۔آپ نےاس کے کئی جواب دئیےکہ یہ میری لکڑی ہے میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کیلئے پتے جھاڑتا ہوں اور اسکے علاوہ میرےاور بھی کام اس سے سر انجام ہوتے ہیں حالانکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اس سوال کا ایک جواب تھا کہ یہ میری لکڑی ہے، مگر بات یہ ہے کہ جب آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل ہوا تو محبت و شوق کے غلبے کی وجہ سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے کلام کو طویل کردیا تاکہ زیادہ سے زیادہ ہمکلامی کا شرف حاصل ہوسکےاور اِس وقت خُوش قسمتی سے مجھے آپ عَلَیْہِ السَّلَام سے گفتگو کا شرف حاصل ہوا تو میں نے بھی شوق و محبت ہی کی وجہ سے اپنی گفتگو کو طویل کردیا۔