Book Name:Isal-e-Sawab Ki Barkatain
حضرت سیِّدُناعبْدُاللہبن عباسرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابیان کرتےہیں کہ رسولِ خدا،حبیبِ کبریاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:قبر میں مُردے کا حال ڈُوبتے ہوئےانسان کی مانند ہے جو شدّت سے انتظار کرتا ہے کہ باپ یا ماں یابیٹایاکسی دوست کی دعا اس کو پہنچے اور جب کسی کی دعا اسے پہنچتی ہے تو اس کے نزدیک وہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہےسب سے بہتر ہوتی ہے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ قبر والوں کو ان کے زندہ مُتَعَلِّقین کی طرف سےہَدِیَّہ کیاہواثواب پہاڑوں کی مانِندعطافرماتاہے،زندوں کاتحفہ مُردوں کے لئے’’دعائےمغفرت کرنا‘‘اور ان کی طرف سے ’’صدقہ کرنا‘‘ہے۔( فردوس الاخبار،۲/۳۳۶، حدیث: ۶۶۶۴)
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ حدیثِ پاک کےاس جملے (میت قبر میں ڈُوبتے ہوئے فریادی کی طرح ہوتی ہے)کی شرح میں فرماتے ہیں کہ عام گنہگار مسلمان تو اپنے گناہوں کی وجہ سے، خاص نیک مسلمان اسی پشیمانی کی وجہ سے کہ ہم نے اور زیادہ نیکیاں کیوں نہ کرلیں،مخصوص محبوبین اپنے چُھوٹے ہوئے پیاروں کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں۔تازہ میت برزخ میں ایسی ہوتی ہے جیسے نئی دُلہن سسرال میں کہ اگرچہ وہاں اسے ہر طرح کا عیش و آرام ہوتا ہے مگر اس کا دل میکے میں پڑا رہتا ہے،جب کوئی سوغات یا کوئی آدمی میکے سے پہنچتا ہے تو اس کی خوشی کی حد نہیں رہتی،پھر دل لگتے لگتے لگ جاتا ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ یہاں میت سے تازہ میت مراد ہے کہ اسے زندوں کے تحفے کا بہت انتظار رہتا ہے اسی لیے نئی میت کو جلد از جلد نیاز،تِیجا،دسواں،چالیسواں وغیرہ سے یادکرتے ہیں۔زندوں کو چاہئے کہ مُردوں کو اپنی دعاؤں وغیرہ میں یاد رکھیں تاکہ کل انہیں دوسرے مسلمان یاد کریں۔ (مراۃ المناجیح،۳/۳۷۳ تا ۳۷۴، ملتقطا)
زندہ لوگوں کا اِیصالِ ثواب فوت شُدہ لوگوں کو تحائف کی صورت میں پیش کیا جاتاہے۔آئیے! اس سے متعلق دوایمان افروز حکایات سنتے ہیں ۔