Dil Ki Islah Kyun Zaroori Hai

Book Name:Dil Ki Islah Kyun Zaroori Hai

کی نظر کا مقام ہے ،  تعجب ہے اس شخص پر جو ظاہِر کو سنوارنے کا اہتمام کرے ،  اپنا ظاہِر دھوئے ،  میل کچیل سے ستھرا کرے تاکہ لوگ اس کےکسی  ظاہری عیب کو نہ دیکھ سکیں مگر دِل کی صفائی کا اہتمام نہ کرے جو رَبُّ الْعَالَمِیْن کی نظر کا مقام ہے... ! !  ( [1] )

اللہ پاک کے قُرْب کا حق دار کون ہے ؟  

اللہ اکبر !  اے عاشقانِ رسول !  غور کا مقام ہے !  ہم نیند سے اُٹھ کر جب تک منہ دھو نہ لیں ،  گھر سے نکلنا گوارا نہیں کرتے ،  کپڑے میلے ہوں تو لوگوں کے سامنے جاتے ہوئے ہمیں جھجک مَحْسُوس ہوتی ہے ،  آج ہمارے معاشرے کے کئی نوجوان ہزاروں روپے صِرْف  بالوں کے سٹائل بنوانے پر لگا دیتے ہیں اور چہرے پر نہ جانے کیا کیا لگواتے ہیں ، ان فیشنز  ( Fashions ) پر روپے بھی خرچ ہوتے ہیں ،  وقت بھی لگتا ہے مگر لوگ یہ سب کرتے  ہیں ،  کیوں ؟  اس لئے تاکہ میں اچھا نظر آؤں اور مجھے دیکھ کر لوگ میری تعریف کریں۔

مگر افسوس !  دِل  میلا ہے ،  دِل پر گُنَاہوں کی سیاہی چڑھی ہوئی ہے ،  دِل میں بُرے خیالات ہیں ،  بدگمانیاں ،  تکبر ،  غرور ہے ،  دِل میں حَسَد کی آگ جَلْ رہی ہے ،  ہمیں اس کی ذرا فِکْر نہیں ہوتی حالانکہ دِل رَبِّ کریم کی نظر کا مقام ہے۔سُلطان العارفین ،  شیخ سلطان باہُو رحمۃُ اللہ علیہ  نے کیا خُوب فرمایا :  اگر نہانے دھونے سے رَبِّ کریم ملتا تو مچھلیاں سب سے زیادہ رَبِّ کریم کا قُرْب پا لیتیں ،  اگر رَبِّ کریم اچھے بال بنوانے کے ذریعے ملتا تو بھیڑ بکریوں کے بال زیادہ ہوتے ہیں ،  وہ رَبِّ کریم کی زیادہ مقرب ہوتیں مگر حقیقت یہ ہے کہ رَبِّ کریم اُن کو ملتا ہے ،  جن کی نِیّت سچّی اور دِل پاک ہوتا ہے۔شیخُ الْاِسْلام حضرت بابا فرید


 

 



[1]...منہاج العابدین ،  صفحہ : 149 بتغیر۔