سورۂ لَہب کا تعارف
مقامِ نزول:
سورۂ ابی لَہب مکہ مکرمہ
میں نازل ہوئی ہے۔ (خازن، تفسیر سورۃ ابی لہب، ۴ / ۴۲۴)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 1 رکوع،5آیتیں
ہیں ۔
’’لَہب ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
لہب کا معنی ہے آگ کا
شعلہ،عبدالمُطَّلب کا ایک بیٹا عبدالعُزّیٰ جو کہ بہت ہی گورا اورخوبصورت آدمی
تھااس کی کنیَت ابولہب ہے،اور اس سورت کی پہلی آیت میں یہ لفظ’’اَبِیْ لَهَبٍ‘‘ موجود ہے اس مناسبت سے اسے سورۂ ابی لہب یا سورۂ لہب کہتے ہیں ۔
سورۂ لہب کاشانِ نزول :
جب نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ
سَلَّمَ نے کوہ ِصفا پر عرب کے
لوگوں کو دعوت دی تو ہر طرف سے لوگ آئے اور حضورِاَ قدس صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے اُن سے اپنے صدق و امانت کی شہادتیں لینے کے بعد فرمایا: ’’اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ
شَدِیْد‘‘ اس پر ابولہب نے حضور پُر نور صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے کہا تھا کہ تم تباہ ہوجاؤ کیا تم نے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا، اس
پر یہ سورت شریف نازل ہوئی اور اللّٰہ
تعالیٰ نے اپنے حبیب
ِاکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ
سَلَّمَ کی طرف سے جواب دیا۔ (خازن، ابولہب، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۲۴) اس سورۂ مبارکہ کے شانِ نزول سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
(1) … حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ
سَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے محبوب ترین
بندے ہیں کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے گستاخوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے خود جواب دیا بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دشمنانِ خدا کو
جوابدہی سنت ِ رسول ہے،اور دشمنانِ رسول کو جواب دینا سنتِ اِلٰہیہ ہے۔
(2) …جس قسم کی بکواس
کفار نے حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے کی کہ مَعَاذَ اللّٰہ آپ تباہ ہوجائیں ، اسی
قسم کا جواب اللّٰہ تعالیٰ نے دیااورخبیثوں
کو اس انجام تک بھی پہنچایا، یہ بھی حضور صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی محبوبیّت کی دلیل ہے۔
(3) … قرآنِ کریم نے
تمام مجرموں کی سزائیں بیان فرمائیں ، جن میں سب سے زیادہ سخت سزا حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ
سَلَّمَ کے گستاخ کی ہے کہ قرآنِ
کریم نے اس کے متعلق کبھی فرمایا، زَنِیْمٍ یعنی ’’بدکاری کی پیداوار‘‘ اور کبھی فرمایا،اَبْتَرُ۠یعنی خیر سے کٹا ہوااور
محروم اور کبھی فرمایا تَبَّتْ یَدَا، تباہ ہوجائے اور کبھی
فرمایا۔’’لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ
لَهُمْ‘‘ اللّٰہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا۔ یونہی جیسے انعام حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ
سَلَّمَ کے ادب اور تعظیم پر دئیے
گئے ، ایسے کسی اور عبادت پر نہ دئیے گئے ۔
(5) … بڑی شرافت، عزت و
نسب والے اور مال والے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی مخالفت سے ذلیل و خوار ہو گئے، تو دوسروں کا کیا پوچھنا ۔