Dukhyari Ummat Ki Madad Karne Ki Fazilat
September 01,2022 - Published 2 years ago
دکھیاری امت کی مدد کرنے کی فضیلت
دین اِسلام سچائی ، صفائی، بھلائی اور اچھائی سکھاتا ہے۔ کہ ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کریں، بلکہ دین اسلام خیر خواہی ہی کانام ہے چنانچہ
اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: دین خیر خواہی ہے، ہم نے عرض کی: کس کی؟ فرمایا: اللہ کی، اُس کی کتاب، اُس کے رسول اور مسلمانوں کے اماموں اور عوام کی۔
(مسلم،ص51، حدیث:196)
اس وقت حالیہ بارشوں اورسیلاب کی وجہ سے ملک پاکستان کے کثیر مسلمان آپ کی مدد کے منتظر ہیں، اللہ کریم بھلائی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اَحْسِنُوْاۚۛ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (پ2، البقرۃ: 195) ترجمہ کنز الایمان: اور بھلائی والے ہو جاؤ بےشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔
دنیا اور آخرت کے معاملات میں خیر کی طرف رہنمائی کرنا، مصیبتوں اور تکلیفوں کو دور کرنا اور ہر ایک مسلمان کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے پسند کرتے ہو یہی خیر خواہی ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت ملک پاکستان کے اکثر و بیشتر علاقوں میں سیلاب کی وجہ سے لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، اپنے بیوی بچوں سے بچھڑ چکے ہیں، اپنی قیمتی اشیاء و اموال و جائیداد کھو چکے ہیں، اس وقت ان کو کپڑوں، راشن، گھر اور پیسوں کی اشد ضرورت ہے اس مصیبت کی گھڑی میں وہ آپ کی مدد اورخیر خواہی و بھلائی کے منتظر ہیں۔
یاد رکھئے! اسلام نے ظالم کے ساتھ بھی بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے، اور بھلائی کی اسلام میں بہت بڑی اہمیت ہےاللہ کریم ایسے لوگوں کو بہت پسند فرماتا ہے جن کی وجہ سے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔
چنانچہ اللہ پاک کے سب سے آخری نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کو وہ شخص زیادہ پسندہے جو لوگوں کو زیادہ نَفْعْ پہنچاتاہواور اللہ پاک کا سب سے پسندیدہ عمل وہ سُرُور یعنی خوشی ہے جو تُو کسی مسلمان کے دل میں داخِل کرے خواہ تُو اس کی پریشانی دُور کرے یا اُس کاقَرْض ادا کرے یا اُس کی بھوک مٹائے اور اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلنا مجھے اپنی اس مسجِد میں ایک مہینہ اعتِکاف کرنے سے زیاد ہ پسندہے اور جس نے اپنا غصّہ پی لیا حالانکہ وہ اسے نافِذ کرنے پرقُدرت رکھتا تھا تو اللہ پاک قِیامت کے دن اس کے دل کو اپنی رِضا سے بھر دے گا اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری ہونے تک اُس کے ساتھ رہے اللہ پاک اُس دن اسے ثابِت قَدَمی عطا فرمائے گا جس دن قدم پِھسلتے ہوں گے ۔ (اَلتّرغیب وَالتّرھیب ج۳ ص ۲۶۵ رقم ۲۲ )
مزید ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مؤمِن کے دل میں خوشی داخِل کرتاہے اللہ پاک اُس خوشی سے ایک فِرِشتہ پیدا فرماتا ہے جو اللہ پاک کی عبادت اور توحید میں مصروف رَہتاہے۔ جب وہ بند ہ اپنی قَبْر میں چلا جاتاہے تو وہ فِرِشتہ اُس کے پاس آکر پوچھتاہے :’’کیا تُو مجھے نہیں پہچانتا؟ ‘‘ وہ کہتا ہے کہ’’ تو کون ہے؟‘‘ تو وہ فِرِشتہ کہتاہے کہ ’’میں وہ خوشی ہو ں جسے تُو نے فُلاں کے دل میں داخِل کیا تھا آج میں تیری وَحْشت میں تجھے اُنْس پہنچاؤں گا اور سُوالات کے جوابات میں ثابِت قدم رکھوں گا اور روزِ قِیامت تیرے لئے تیرے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں سِفارش کروں گا اور تجھے جنَّت میں تیرا ٹِھکانادکھاؤں گا۔( اَلتّرغیب وَالتّرھیب ج۳ ص ۲۶۶رقم ۲۳ )
مسلمانوں کی خیر خواہی اور ان کے دل میں خوشی پیدا کرنے کی نیت سے جس سے ہو سکے وہ مسلمانوں کو اپنے مال و قیمتی اشیاء کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نفع پہنچائے۔ اللہ کریم ہم سب کو مل جل اس کارِ خیر میں حصہ ملانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔