Islam Aurat Ka Sab Se Bara Muhsin Hai
February 27,2019 - Published 5 years ago
اسلام عورت کا سب سے بڑا مُحْسِنْ
اسلام
سے پہلے عورت کی کوئی عزت و وقعت نہیں تھی۔ جیسے آج بھی مغربی معاشرے میں کوئی عزت نہیں ہے، کیوں؟
کیونکہ عورت کو صرف شوپیس اور اپنی تسکین کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، کسی بھی
قسم کا سامان فروخت کرنا ہو، کمپنی کی کوئی ڈیل ہو، ریسپشن ہو، بس، ٹرین، ہوائی
جہاز، کاؤنٹرز الغرض تجارت اور اس کی تشہیرکا کوئی بھی مقام ہو وہاں عورت کو شوپیس
پراڈکٹ بنا کرپیش کیا جاتا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب یہ عورت بڑھتی عمر کے ساتھ
اپنا حسن کھو دیتی ہے تو کوئی اسے پوچھتا تک نہیں، یہ اس عورت کی بات ہے جس سے
ہمارا کوئی رشتہ نہیں، جبکہ حال یہ ہے کہ ماں، بہن، بیوی، بیٹی جیسے رشتوں کا تقدس
بھی جدت پسندی کے طوفان میں غرق ہو کر رہ گیا ہے، عورت کو تمام اجتماعی و
انفرادی انسانی حقوق، عزت ووقار، پیار
ومحبت، زندگی کا سہارا، معاشرے کے ناروا اور وحشیانہ سلوک سے چھٹکارا اور تپتی
دھوپ میں ٹھنڈا سایہ صرف اسلام کے جھنڈے تلے ہی نصیب ہو سکتا ہے، اسلام وہ واحد
مذہب ہے جو مرد کے حقوق کے ساتھ ساتھ عورت کے حقوق بھی ناصرف بیان کرتا بلکہ انہیں
پورا کرنے کی سختی سے تاکید کرتا ہے۔ عورتوں کو اپنی عزت محفوظ رکھنے کی خاطر پردہ
کرنے اور مرد کو عورت ہی کی عزت کے لیے نگاہیں نیچے رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ ذیل میں
ملاحظہ کیجئے کہ آیا کوئی بھی مذہب ومعاشرہ عورت کو وہ عزت وتحفظ دے سکتا ہے جو
اسلام نے اس کے لیے مقرر کیا۔
اسلام اورماں
:
اسلام
اولاد کو ماں کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن ِسلوک کا پابند بناتا ہے۔ ایک صحابی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے تین بار یہ پوچھنے
پر کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین بار فرمایا: تیری ماں، چوتھی بار اسی
سوال کے جواب میں فرمایا :تیرا باپ۔ (بخاری ،حدیث : 5971)
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ
سعدیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے آنے پر ان کے لیے اپنی مبارک چادر بچھادی۔ (ابو داود، حدیث: 5144)
اسلام اور
بیٹی :
لڑکی کی پیدائش پر رنج و غم کرنا
کافروں کا طریقہ ہے، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ
وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیۡمٌ﴿۵۸﴾ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنۡ سُوۡٓءِ
مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ
اَلَا سَآءَ مَا یَحْکُمُوۡنَ ﴿۵۹﴾(پ۱۴،النحل:۵۸) |
ترجمۂ کنز الایمان:اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی
خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے
لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی بُرائی کے سبب کیا اسے ذلّت کے ساتھ رکھے
گا یا اسے مٹی میں دبادے گا ارے بہت ہی بُرا حکم لگاتے ہیں۔ |
بیٹی
پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت فضیلت ہے ، رسولِ کریمصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا ’’ جب کسی شخص کے ہاں
بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اللّٰہ ربُّ العزّت اس کے ہاں فرشتوں کو بھیجتا ہے، وہ آکر
کہتے ہیں: اے گھر والو! تم پر سلامتی نازل ہو، پھر اس بیٹی کا اپنے پروں سے اِحاطہ
کر لیتے ہیں اور اس کے سر پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں’’ ایک کمزور لڑکی ایک
کمزور عورت سے پیدا ہوئی ہے، جو اس کی کفالت کرے گا توقیامت کے دن اس کی مدد کی
جائے گی۔ (معجم الصغیر، باب الالف، من اسمہ: احمد، ص۳۰، الجزء الاول۔)
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَاسے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جس شخص کے ہاں
بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے ، اُسے ذلیل نہ سمجھے اور اپنے بیٹے کو
اس پر ترجیح نہ دے تو اللّٰہ کریم اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، الحدیث: ۵۱۴۶۔)
جس
زمانے میں بیٹی کو عار اور گالی سمجھ کر زندہ درگور کیا جاتا تھا جہالت کے اس
پرفتن زمانے میں رحمتِ دو جہاں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بیٹی کو عزت ووقار دیتے ہوئےارشاد فرمایا:فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ
أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي۔ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے تکلیف دی
اس نے مجھے تکلیف دی۔ (بخاری)
فی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے
پرغمزدہ ہو جانے، چہرے سے خوشی کا اظہار نہ ہونے، مبارک باد ملنے پر جھینپ جانے،
مبارک باد دینے والے کو باتیں سنا دینے، بیٹی کی ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے
میں عار محسوس کرنے، صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ سے ماؤں پر ظلم و ستم کرنے اور
انہیں طلاقیں دے دینے تک کی وبا عام ہے،لہٰذا
مسلمانوں پر لازم ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر یوں غم نہ کریں کہ اسلام ہمیں اس بات کا
درس نہیں دیتا۔
اسلام اور
بہن:
اسلام سے پہلے بہن کے ساتھ بھی کوئی
اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ ماں باپ کی وراثت سے تو اسے یوں بے دخل کردیتے جیسے
دودھ سے مکھی کو نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اسلام نے ماں اور بیٹی کی طرح بہن کو بھی وِراثت کا حق دیا کہ اگر
کوئی شخص فوت ہوا اور اس کے وُرَثَاء میں
باپ اور اولاد نہ ہو تو سگی اور باپ شریک بہن کو وِرَاثت سے مال کا آدھا حصّہ ملےگا جبکہ صرف ایک ہو اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی (3/2) مال ملے گا۔ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے بہنوں پر خرچ کو دوزخ سے رکاوٹ کا سبب
بتاتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا: جس نے اپنی
دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دورشتہ دار بچیوں پر اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیا یہاں تک کہ اللہ پاک نے انہیں اپنے فضل سے غنی
کردیا تو وہ اس کے لیے آگ سے پردہ ہو جائیں گی۔ خود رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنی رضاعی بہن (دودھ شریک) حضرت شیماء رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے
ساتھ یوں حسن سلوک فرمایا: ان کےلیے تعظیما کھڑے ہوگئے، اپنی چادر بچھاکر اس پر بٹھایا اور فرمایا:
مانگو تمہیں دیا جائے گا، سفارش کرو، تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔(سبل
الہدیٰ والرشاد، 5/333 ملتقطاً) حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے محض
اپنی 9 یا 7 بہنوں کی دیکھ بھال اور اچھی تربیت کی خاطر بیوہ عورت
سے نکاح کیا۔ تو اس پر رسولُ
اللہ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو برکت کی دعا دی۔ (مسلم، حدیث :715 )
اسلام اور
بیوی:
اللہ پاک نے بیویوں کو شوہروں کے آرام و سکون
کاذریعہ ارشاد فرمایا (پارہ 21،روم : 21)، ان
کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا۔ (پارہ4،
النساء: 19) ایک شخص نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے پوچھا: شوہر پر بیوی کا کیا حق ہے؟ تو
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: جب مرد کھائے
تو اُسے بھی کھلائے، جب لباس پہنے تو اُس کو بھی پہنائے اور چہرے پر
ہرگز نہ مارے اور (اگر
سمجھانے کے لیے) اس
سے علیحدگی اختیار ہی کرنی پڑے تو گھر میں ہی (علیحدگی) کرے۔ (ابن ماجہ، حدیث: 1850)
رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا فرمان ہے: مؤمن نے اللہ پاک سے خوف کے بعد نیک بیوی سے
بہتر کوئی نعمت نہیں پائی۔ (ابن
ماجہ، حدیث: 1857) یہ اسلام ہی ہے جس نے بیوی کی صورت
میں عورت کے رشتہ کو اتنا عظیم مقام دیا کہ خوف خدا کے بعد سب سے بہتر نعمت قرار دیا۔ یہ ایسا اعزاز ہے کہ جس سے غیر اسلامی معاشرہ یکسر
خالی نظر آتاہے۔
قارئین
کرام ! عورت کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے جو عزّت و عظمت، مقام و مرتبہ اور احترم اسلام نے
دیا، دنیا کے کسی قانون، مذہب یا تہذیب نے
نہیں دیا۔ اسلام کے اس قدر احسانات کے باوجود کسی ’’عورت ‘‘ کو یہ زیب نہیں دیتا
کہ وہ اسلامی تعلیمات کو چھوڑکر اپنے
لباس، چال ڈھال، بول چال، کھانے پینے، ملنے ملانے وغیرہ میں غیروں کے اندازکواپنائے لہٰذا ہر مسلمان عورت
کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی اللہ پاک و رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی اطاعت میں گزارے۔
مزید معلومات کے لئے کتاب ’’عورت اور آزادی‘‘ اور’’عورت اور پردہ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔