Islam Ke Baray Mey Bunyadi Maloomat - Islami Maloomat
February 27,2019 - Published 5 years ago
اسلام کے بارے میں بنیادی
معلومات
اس
روئے زمین پر مختلف مذاہب و اَدیان کے ماننے والے آباد ہیں۔ جو اپنی اپنی تہذیب
اور اعتقاد کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن اللہ ربُّ العلمین کی بارگاہ عالیہ
میں مقبول دین اسلام ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ
الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ترجمۂ کنز الایمان: بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے۔ اسلام ایک
فطری اور آفاقی دین ہے اور انسانیت کےلیے کامل ہدایت ہے اس کی تعلیمات اور احکام اللہ ربّ العزّت کے نازل کردہ ہیں لہذا انہیں پر عمل پیرا ہو کر
دونوں جہاں میں کامیابی ممکن ہے۔ ہر ایک کو چاہیے کہ اسلام کے بارے میں بنیادی
معلومات حاصل کرے اور کچھ کوتاہی پائے تو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی اصلاح کرے۔ (اسلام کے بنیادی عقیدے، صفحہ 8-9
ماخوذ)
ذات باری
تعالٰی:
مسلمان ہونے کےلیے ضروری ہے کہ انسان اس بات
کو سچے دل سے مانے اور زبان سے اقرار کرے کہ اﷲ ایک ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، نہ
ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں، نہ احکام میں، نہ اسما میں، وہ واجب الوجود
ہے، یعنی اس کا وجود ضروری ہے، قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں، باقی ہے یعنی
ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔ وہ کسی
کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج ہے۔ اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اس کو
محیط ہوتی ہے اور اس کو کوئی احاطہ نہیں کر سکتا، البتہ اس کے افعال کے ذریعہ سے
اِجمالاً اس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح
اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں۔ اُس کی صفات نہ
مخلوق ہیں نہ زیرِ قدرت داخل۔ ذات و صفات کے سِوا سب چیزیں حادث ہیں، یعنی پہلے نہ
تھیں پھر موجود ہوئیں۔ صفاتِ الہٰی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین
ہے۔ جو عالم میں سے کسی شے کو قدیم مانے یا اس کے حدوث میں شک کرے، کافر ہے۔ اللہ پاک کسی
کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے
لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے، بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے۔ (بہارِ شریعت، حصّہ
اوّل)۔
نبوّت و
رسالت:
جس انسان کو اﷲ پاک نے
مخلوق کی ہدایت کے لیے بھیجا ہو اسے نبی کہتے ہیں۔ اور ان نبیّوں میں سے جو نئی
آسمانی کتاب اور نئی شریعت لے کر آئے۔ وہ رسول کہلاتے ہیں۔ نبی سب بشر تھے اور
مرد، نہ کوئی جن نبی ہوا نہ عورت۔ نبوّت کا سلسلہ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام سے شروع ہوا اور دنیا میں تشریف لانے والے سب سے
آخری نبی ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں۔ (اسلام کی بنیادی باتیں،حصّہ 2-صفحہ 26،حصّہ 3-صفحہ
37) نبی کا معصوم ہونا
ضروری ہے اور یہ عِصمت نبی اور فرشتہ کا خاصہ ہے کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ عصمتِ
انبیا کے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہو لیا، جس کے سبب ان سے
صدورِ گناہ شرعاً محال ہے۔ (بہارِ شریعت، حصّہ اوّل) اللہ پاک انہیں عقلِ کامل عطا فرماتا ہے،
دنیا کا بڑے سے بڑا عقل مند ان کی عقل کے کروڑویں درجہ تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔
نبوّت اللہ پاک کا فضل ہے کوئی شخص عبادت وغیرہ کے ذریعہ سے اسے حاصل نہیں کرسکتا۔ اللہ پاک
انبیائے کرام کو معجزات عطافرماتا ہے جو ان کی نبوّت کی دلیل ہوتے ہیں۔ اور انہیں
غیب پر مطّلع فرماتا ہے۔ (ماخوذماہنامہ فیضان مدینہ، مئی 2017)
ملائکہ یعنی
فرشتے:
اﷲ پاک نےفرشتوں کو نور سے پیدا کیا ہے اور
اِن کو یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں بن جائیں، کبھی وہ انسان کی شکل میں ظاہر
ہوتے ہیں اور کبھی دوسری شکل میں۔ فرشتے نہ مرد ہیں، نہ عورت۔ وہ وہی کرتے ہیں جو حکمِ
الٰہی ہے، خدا کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرتے، نہ قصداً، نہ سہواً، نہ خطاً، وہ اﷲ کی معصوم
مخلوق ہیں، ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہوں سے پاک ہیں۔ چار فرشتے بہت مشہور ہیں:
جبریل و میکائیل و اسرافیل اورعزرائیل عَلَیْہِمُ السَّلَام اور یہ سب ملائکہ پر فضیلت رکھتے ہیں۔ کسی فرشتے کی ادنی گستاخی کفر ہے، جاہل
لوگ اپنے کسی دشمن یا مبغوض کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ملک الموت یا عزرائیل آگیا، یہ
قریب بکلمہ کفر ہے۔ فرشتوں کے وجود کا انکارکرنا یا یہ کہنا کہ فرشتہ نیکی کی قوت
کو کہتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں، یہ دونوں باتیں کفر ہیں۔(بہارِ شریعت،حصّہ
اوّل)۔
آسانی
کتابیں:
بہت
سے نبیوں پر اللہ پاک نے صحیفے اور آسمانی کتابیں اُتاریں، اُن میں
سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں: ’’تورات‘‘ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر، ’’زبور‘‘
حضرت داؤد عَلَیْہِ
السَّلَام پر، ’’انجیل‘‘
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ
السَّلَام پر، ’’قرآنِ عظیم‘‘ کہ سب سے افضل کتاب ہے، سب سے افضل رسول احمدِ مجتبیٰ محمدِ
مصطفےٰ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر۔ کلامِ الٰہی میں بعض کا بعض سے
افضل ہونا اس کے یہ معنی ہیں کہ ہمارے لیے اس میں ثواب زیادہ ہے، ورنہ اللہ پاک ایک،
اُس کا کلام ایک، اُس میں افضل و مفضول کی گنجائش نہیں۔(بہار شریعت، حصّہ اوّل)
ساری آسمانی کتابیں سچی ہیں اور جو احکام اللہ پاک نے
ان میں دئیے ہیں ان پر ایمان لانا ضروری ہے البتّہ قرآن پاک کے علاوہ دیگر کتابوں
میں تبدیلی اور تحریف کی وجہ سے ان کی موجودہ عبارتوں پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا
ہے۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ جب ہمارے سامنے کوئی ایسی چیز آئے جس کا ذکر پچھلی
کتابوں میں ہے ہم صرف اسی صورت میں قبول کریں گے کہ وہ قرآن پاک کے ساتھ مطابقت
رکھتی ہو، لیکن اگر وہ چیز قرآن پاک سے ٹکراتی ہے تو اس کو تحریف کا نتیجہ سمجھیں
گے۔ (اسلام
کے بنیادی عقیدے، صفحہ 20)
تقدیر:
ہر بھلائی، بُرائی اللہ پاک نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق
مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اور جو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے
جانا اور وہی لکھ لیا۔ اسی کا نام تقدیر ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جیسا اُس نے
لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ
دیا۔ زید کے ذمہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی
کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیے بھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے
کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس
اُمت کا مجوس بتایا۔ (بہار شریعت، حصّہ اوّل)
آخرت وقیامت:
عقیدۂ آخرت کا مطلب یہ ہے کہ اس بات
کا یقین دل میں راسخ ہوجائے کہ ہم مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور
خدا کے سامنے ہمیں اپنی زندگی کے سارے اعمال کا حساب دینا ہوگا اور اپنے عمل کے
اعتبار سے جزا و سزا دونوں طرح کے نتائج کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا، اسی یَومُ الْحِساب کا
نام مذہبِ اسلام کی زبان میں قیامت ہے۔ (عقیدہ آخرت، صفحہ :۴)
جنّت:
اللہ پاک نے اپنے بندوں کو ان کے اچھے
اچھے اعمال کا اپنے فضل و کرم سے بدلہ اور انعام دینے کے لئے آخرت میں جو شاندار
مقام تیار کررکھا ہے اُس کا نام جنت ہے اور اُسی کو بہشت بھی کہتے ہیں۔
جنت
میں ہر قسم کی راحت و شادمانی و فرحت کا سامان موجو د ہے۔ سونے چاندی اور موتی و
جواہرات کے لمبے چوڑے اور اُونچے اُونچے محل بنے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ ریشمی کپڑوں
کے خوبصورت و نفیس خیمے لگے ہوئے ہیں۔ ہر طرف طرح طرح کے لذیذ اور دل پسند میوؤں
کے گھنے، شاداب اور سایہ دار درختوں کے باغات ہیں۔ اور ان باغوں میں شیریں پانی،
نفیس دودھ، عمدہ شہد اور شرابِ طہور کی نہریں جاری ہیں۔ قسم قسم کے بہترین کھانے
اور طرح طرح کے پھل فروٹ صاف ستھرے اور چمکدار برتنوں میں تیار رکھے ہیں ۔ اعلیٰ
درجے کے ریشمی لباس اور ستاروں سے بڑھ کر چمکتے اور جگمگاتے ہوئے سونے چاندی اور
موتی و جواہرات کے زیورات ، اونچے اونچے جڑاؤ تخت ، اُن پر غالیچے اورچاندنیاں
بچھی ہوئی اور مسندیں لگی ہوئی ہیں۔ عیش ونشاط کے لئے دنیاکی عورتیں اورجنت کی
حوریں ہیں جوبے انتہاحسین وخوبصورت ہیں۔ خدمت کے لئے خوبصورت لڑکے چاروں طر ف دست
بستہ ہر وقت حاضر ہیں الغرض جنت میں ہر قسم کی بے شمار راحتیں اور نعمتیں تیار
ہیں۔ اور جنت کی ہر نعمت اتنی بے نظیر اور اس قدر بے مثال ہے کہ نہ کبھی کسی آنکھ
نے دیکھا ،نہ کسی کان نے سنا ،نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا۔ جنّتی لوگ بِلا
روک ٹوک اُن تمام نعمتوں اور لذتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور ان تمام نعمتوں سے بڑھ
کر جنت میں سب سے بڑی یہ نعمت ملے گی کہ جنت میں جنتیوں کوخداوندقدوس کادیدارنصیب
ہوگا۔جنت میں نہ نیندآئے گی نہ کوئی مرض ہوگانہ بڑھاپاآئے گانہ موت ہوگی۔جنتی
ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور ہمیشہ تندرست اور جوان ہی رہیں گے۔
اہلِ
جنت خوب کھائیں پئیں گے مگرنہ ان کوپیشاب پاخانہ کی حاجت ہوگی نہ وہ تھوکیں گے نہ
ان کی ناک بہے گی۔ بس ایک ڈکار آئے گی اور مُشک سے زیادہ خوشبو دار پسینہ بہے گا
اور کھانا پینا ہضم ہوجائے گا۔ جنتی ہر قسم کی فکروں سے آزاد اور رنج و غم کی
زحمتوں سے محفوظ رہیں گے۔ ہمیشہ ہر دم اور ہر قدم پر شادمانی اور مسرت کی فضاؤں
میں شادو آباد رہیں گے اور قسم قسم کی نعمتوں اور طرح طرح کی لذتوں سے لطف اندوزو
محظوظ ہوتے رہیں گے۔ (بہشت کی کنجیاں، صفحہ:23-24)
دوزخ:
اللہ پاک نے کافروں ، مشرکوں ، منافقوں اور دوسرے مجرموں اور گناہ گاروں کو عذاب اور
سزا دینے کیلئے آخرت میں جو ایک نہایت ہی خوفناک اور بھیانک مَقام تیار کر رکھا ہے
اُس کا نام ’’ جہنم‘‘ ہے اور اسی کو اُردو میں ’’دوزخ‘‘ بھی کہتے ہیں۔جہنم میں
دوزخیوں کو طرح طرح کے خوفناک اور بھیانک عذا ب میں مبتلا کیا جائے گا۔ اُن عذابوں
کی قسموں اور اُن کی کیفیتوں کو خداو ند ِ علامُ الغیوب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
جہنم میں دی جانیوالی سزاؤں کو دنیا میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ عذاب کی
چندصورتیں ہیں جن کا حدیثوں میں تذکرہ آیا ہے اُن میں سے بعض یہ ہیں۔
خونیں د ریا کا عذ ا ب، گلپھڑے چیرنے کا عذ
ا ب، پتھراؤ کا عذاب، مُنہ نوچنے کا عذ ا ب، سانپ بچھو کا عذاب، حلق میں پھنسنے
والے کھا نو ں کا عذ ا ب، گرم پا نی ا و ر پیپ کا عذ ا ب وغیرہ۔
الحاصل جہنم میں طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ دوزخیوں کو عذاب دیا جائے گا
اور جس طرح جنت کی نعمتوں کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی
کے دل میں اُس کا خیال گزرا ہے اِسی طرح جہنم کے عذابوں کو بھی نہ کسی آنکھ نے
دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے دل میں اُس کا خیال گزرا ہے۔ غرض جہنم
میں قسم قسم کے ایسے ایسے بے مثل و بے مثال عذابوں کی بھرمار ہو گی کہ دنیا میں
اُس کی مثال تو کہاں ،کوئی اُن کو سوچ بھی نہیں سکتا۔جو کچھ ہم نے تحریر کیا ہے وہ
صرف سمجھانے کیلئے چند مثالیں لکھ دی ہیں، ورنہ جو کچھ لکھا گیاہے وہ جہنم کے
عذابوں کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ بس اُس کی مقدار اور کیفیتوں اور قسموں کو تو صرف
اللہ پاک ہی جانتا ہے۔ اللہ پاک ہرمسلمان کو جہنم کے عذابوں سے بچائے اور
ایسے اعمال سے محفوظ رکھے جو جہنم میں لے جانے والے ہیں۔(جہنم کے خطرات، صفحہ:15-16،18
تا 22)
قارئین کرام
! یہ اسلام کے بارے میں وہ بنیادی معلومات ہیں کہ جن کا ہرمسلمان مرد و عورت کو
علم ہونا چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب
کو اسلام کی تعلیمات حاصل کرنے کا جذبہ عنایت فرمائے۔ آمین
مزید معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی
مطبوعہ کتاب ’’اسلام کے بنیادی عقیدے‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔