بہن کو اذیت دینے کا عذاب
December 21,2015 - Published 8 years ago
حضرت فقہی ابولیث سمرقندی رحمتہ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ ایک عجمی بزرگ کا بیان ہے کہ میرا ایک دوست بہت نیک آدمی تھا۔ عبادت کے جذبے کے سبب ا س نے مکہ مکرمہ میں بودوباش اختیار کرلیا، روزانہ طواف کعبہ معظمہ اور تلاوت قرآن اس کا معمول تھا۔ میں نے اپنا کچھ سونا اس نیک آدمی کے پاس رکھوایا،اور سفر پر نکل گیا۔واپسی پر معلوم ہوا کہ یہ فوت ہوچکا ہے۔ میں نے امانت کے ضمن میں اس کے بیٹے سے رجوع کیا ، اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔میں غمزدہ ہوکرایک جگہ بیٹھ رہا۔اتنے میں اس دور کے مشہور ولی حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمتہ الغفاروہاں سے گزرے، مجھے رنجیدہ دیکھ کر غمخواری فرمائی۔ میں نے اپنی امانت کا تذکرہ کیا ۔توفرمایا کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب آدھی رات کے وقت مطاف یعنی طواف کی جگہ بالکل خالی ہو ، اس وقت رکن اسوداور مقام ابراھیم کے درمیان اس کا نام لیکر بلند آواز سے پکارئیے۔ اگر وہ نیک بندہ ہوتو ضرور آپ سے ہم کلام ہوگا۔ کیونکہ ارواح ِ مغفرین یہاں پہ جمع ہوتی ہیں۔
وہ بزرگ فرماتے ہیں میں ایسا ہی کیا مگرجواب نہ ملا ۔صبح مالک بن دینار علیہ رحمتہ الغفار سے جب میں نے عرض کیا تو انہوں نے کہا کہ انا للہ و انا الیہ رٰجعون۔ پھر فرمایا معاذ اللہ آپ کا دوست عذاب میں گرفتار معلوم ہوتا ہے۔ آپ یمن تشریف لیجائیں۔اور وہاں آدھی رات کو شاہ بربوط کے قریب کھڑے ہوکر اس کو پکاریں وہ جواب دے گا۔ معذبین یعنی عذاب پانے والوں کی روحیں وہا ں جمع کی جاتی ہیں۔ وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ میں یمن شریف گیااور آدھی رات کو شاہ بربوط پہنچا یکایک میں نے نہایت ہی ڈراونا منظر دیکھا وہ یہ کہ دو شخصوں کو پکڑ کا لایا گیا۔ اور اس میں اتارا جانے لگا۔دوروتے ہوئے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ توکون ہے، ایک نے جواب دیا کہ میں فلاں ظالم کی روح ہوں جو پہرادار تھااور میں حرام کھاتا تھا۔دوسرا بولامیں ابی ملک بن مروان کی روح ہوں۔میں سخت گناہ گار اور ظالم تھااور مجھے عذاب کے لئے یہاں لایا گیا ہے ۔ اس کے بعدمیں نے ان دونوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنیں۔ خوف کے مارے میراروٗں روٗں کانپنے لگا۔لیکن کسی بھی طرح ہمت کرکے کنویں میں جھانک کر اپنے دوست کو نام لیکر پکارااس نے انتہائی درد وکرب کے ساتھ ٹھرائی ہوئی آوا ز کے ساتھ لبیک یعنی میں حاضر ہوں۔ میں نے پوچھا کہ میری امانت کہاں رکھی ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے فلاں جگہ دفن کی۔پھر میں نے پوچھا تم یہاں کیسے آگئے۔تم تو نیک آدمی تھے۔جواب دیا کہ میں عبادت کے شوق میں مکہ المکرمہ میں آبسا۔جب کہ عجم میں میری ایک بہن رہتی تھی۔افسوس میں نے نہ کبھی اس کے کھانے پہننے کی فکر کی نہ کبھی اس کی کوئی خبر نکالی،اس لئے مجھے قطع رحمی یعنی رشتے دار روں سے تعلق توڑنے کے جرم کی پاداش میں میری پکڑ ہوگئی،جب میں مراتو مجھ سے کہا گیاتو اپنی بہن کو کیسے بھول گیا ۔وہ بھوکی رہی تو قطع رحمی کرنے والے پر رحم نہیں کیا جاتا۔لے جاو اسے شاہ بربوط میں تو حضرت سیدنا ملک الموت علیہ السلام مجھے یہاں لے آئے۔اے میرے بھائی میں نے بہت نیکیاں اکٹھی کی ہیں۔ مگرا فسوس اس ایک گناہ کے سبب عذاب میں مبتلا ہوں ۔ میرے پیارے دوست میری بہن فلاں جگہ رہتی ہے ۔اس کے پاس جاکر میرا حال زار سنا کرمیرے لیے معافی مانگو، ہوسکتا ہے کہ میری نجات کی کوئی راہ نکل آئے۔کیونکہ ا س کے علاوہ میر ے پلے کوئی گناہ نہیں۔آپ کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہوگا۔وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے وہاں سے رخصت ہوکر اپنا دفینہ نکالاپھر کچھ رقم لیکر اس کی بہن کو تلاشا اور اسے مل کر اس کے مرحوم بھائی جا ن کی داستان غم نشان سنائی، سن کرو ہ رونے لگی،جب میں نے معافی کی بات کی تو اس نے اپنی غربت اور افلاس کے فسانے چھیڑ دئیے۔اس پر میں نے اسے کچھ دنیاوی مال پیش کیا۔اور لوٹ آیا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس رونگٹے کھڑے کردینے والی حکایت میں عبر ت کے بے شمار مدنی پھول ہیں۔آہ ! اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر کس کے بارے میں کیا ہے ؟یہ کوئی نہیں جانتا۔ وہ کس عمل کے سبب بخش دے اور کس گناہ پر گرفت فرمالے اس کا ہمیں کوئی پتہ نہیں۔بیان کردہ حکایت میں نیک پرھیز گا ر بندے کو جس کا اعمال نامہ نیکیوں سے بھرپورتھا۔ قطع رحمی والے صرف ایک گناہ کی وجہ سے یعنی بہن کی دیکھ بھال سے لاپرواہی برتنے کے سبب عذاب کے کنویں میں قید کرلیا گیا۔ آہ! آہ !آہ ! قطع رحمی یعنی رشتے کاٹنے کا گناہ آج ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ اس سے خلاصی کے بظاہر کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی۔کوئی اپنے باپ سے ٹکرایا ہے تو کسی نے ماں سے لڑکر اپناگھر الگ بسایا ہے۔کوئی اپنے بھائی سے بگاڑ کر اپنا گھر اجاڑ بیٹھا ہے۔ توکوئی اپنی سگی بہن سے بگاڑ بیٹھا ہے۔ کسی کے غیروں سے اچھی طرح بنی ہوئی ہے مگر خالہ ماموں سے ٹھنی ہوئی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے آج رشتہ کاٹ دیا جاتا ہے۔ رشتے داروں کے حقوق سے قرآن وحدیث مالا مال ہے۔
حضرت سیدنا طارق بن شہاب رحمہم الوہاب فرماتے ہیں کہ ہم حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھے۔آپ رضی اللہ عنہ نے یہ روایت بیان کی کہ آقائے مدینہ مولائے مکہ مکرمہ المکرمہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ
بے شک قیامت کے قریب خاص لوگوں کو سلام کیا جائے گا۔ تجارت عام ہوجائے گی یہاں تک کہ بیوی تجارت میں اپنے شوہر کی مدد گار ہوگی۔ قطعی رحمی ہوگی یعنی رشتے توڑے جائیں گے اور جھوٹی گواہی کا ظہور ہوگااور سچی گواہی چھپائی جائے گی۔
مسلم شریف کے حدیث ہے کہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبار ک و تعالی نے فرمایا کہ
میں نے مخلوق کو پیدا فرمایاجب اس کی تخلیق مقدر فرمادی تو رحم یعنی رشتے داری نے عرض کی یہ قطع رحمی سے پناہ مانگنے کا مقام ہے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہاں کیا توا س بات پر راضی نہیں کہ جوتجھ سے ملائے میں اس سے ملاوں یعنی انعام و اکرام کرواں اور جو تجھ سے کاٹے میں اس سے کاٹوں یعنی اپنے لطف و رحمت سے محروم رکھوں۔ رحم نے عرض کی میں راضی ہوں۔فرمایا کہ بس تیرے لئے ایسا ہی ہے۔
پھر میٹھے میٹھے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ یہ آیت پڑھو کہ پارہ چھبیسواں سورۃ محمد کی آیت نمبر بائیس اور تئیس کا ترجمہ میرے آقائے نعمت امام اہلسنت عظیم المرتبت عظیم البرکت پروانہ شمع رسالت مجدد دین وملت پیر طریقت عالم شریعت مولینا الشاہ امام احمدر ضا خان علیہ الرحمتہ الرحمن اپنے شہر ہ آفاق ترجمہ قرآن کنز الایمان میں کچھ یوں کرتے ہیں
ترجمہ کنزالایمان :۔اور کیا تمھارے یہ لچھن نظر آتے ہیں کہ تمھیں حکومت ملے توزمین میں فساد پھیلاو اور اپنے رشتے کاٹ دو۔یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ تعالی عزوجل نے لعنت کی۔اور تمھیں حق سے بہر ہ کردیااور ان کی آنکھیں پھیر دیں۔
اس میں ارباب اقتدار کے لئے بھی نصیحت ہے اور جو بات بات پر رشتے کاٹ لیتےہیں ، انکے لیے بھی اس میں نصیحت ہے۔
ذی الارحام یعنی ذی رحم کی تعریف: والدین بیٹا، بیٹی، دادا ، دادی ،نانا، نانی ، بہن بھائی ، چاچا،پھوپھی ، خالہ ماموں ، وغیرہ ، یہ تو ذی الارحام یعنی رحم کے رشتے دار کہلاتے ہیں اس میں علماء کے اقوال مختلف ہیں ،کہ حسن سلوک اور قطعی رحمی کے جو مسائل ہیں اس میں ذی رحم سے یہی رشتے دار مراد ہیں یا کیا اس میں اقوال مختلف ہیں ۔ایک قول یہ ملتا ہے کہ تمام رشتے دار اس میں شامل ہیں۔ قطعی رحمی اور حسن سلوک کے معاملے میں بہار شریعت میں یہ لکھا ہوا ہے اور انہوں نے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔ کہ سب رشتے دار وں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ جو جتنا زیادہ قریبی رشتے دار ہے اس کے حقوق اتنے ہی زیاد ہیں۔ جیسے ماں سب رشتے داروں میں سب سے زیادہ حق ماں کا ہے۔ اس کے بعد باپ کا نمبر آتا ہے۔ ماں باپ سب سے زیادہ حسن سلوک کے حق دار ہیں۔
ان جیسے نہ بنئے گا جو سب کے سامنے تو بڑے بااخلاق بنتے ہیں اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور باپ کو جھاڑتے ہیں۔ ماں باپ کی ایک نہیں سنتے ایسے نادان نہ بنئیے گا۔ ورنہ دنیا میں ہی برباد ہوجائیں گے۔ آخرت کا عذاب توباقی ہے لیکن ماں باپ کو ستانا ماں باپ کی نافرمانی وہ جرم ہے کہ اس کی دنیا میں بھی سزاء ملتی ہے۔ تو ماں باپ کا حق ذی الارحام میں سب سے زیا د ہ ہے ۔ سب سے زیادہ۔
صلہ رحمی سنا تو آپ نے بارہا ہوگا، حسن سلوک بھی سنتے رہتے ہیں۔ یعنی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک۔ یہ صلہ رحمی ، حسن سلوک ہے کیا؟اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔فیض القضیرمیں ہے کہ صلہ رحمی کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مال وغیرہ سے ان رشتے داروں کی مدد کرنا، ان سے ضرر دفع کرنا (انہیں کوئی تکلیف ہواسے دور کرنا)ان سے خوش اخلاقی سے ملنا ،اور ان کے لئے دعائے خیر کرنا،(یہ بھی حسن سلوک ہے)۔اس کی جامع تعریف فیض القضیر میں یہ ہے کہ ہر ممکن بھلائی پہنچانااور ہر ممکن طریقے سے ان سے شر دور کرنا۔
ہر بھلائی کامعاملہ ان کے ساتھ ہو۔ان پر مالی پریشانی آئی آپ اپنے خزانوں کا منہ کھولئے اور انکی امداد کیجئے۔اگر آپ نے زکوۃ دینی ہے تو سب سے پہلے انہی رشتے داروں میں دیکھئے۔اور ان رشتے داروں کو فوقیت دیجئے جو قریب تر ہیں۔
جو رشتے دار زکوۃ کا مستحق ہے یہ یاد رکھئے کہ ماں باپ کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔ نہ بیٹے کو جائز ہے نہ بیٹی کو جائز ہے۔ یعنی وہ رشتے دار جنہیں زکوۃ دینا جائز ہے۔ ان میں سے قریب ترین رشتے دار کا چناو کیجئے اور سب سے پہلے انہیں زکوۃسے نوازئیے۔اوریہ بالکل کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں آپ کو زکوۃ دے رہا ہوں نہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آپ زکوۃ لیں گے۔ آپ بے شک انہیں عیدی کہہ کرد ے دیں ، گفٹ کہہ کر دے دیں ،کیونکہ زکوۃ کی آپ کی نیت ہے آپ کی زکوۃ ہوجائے گی۔یہ رعایت شریعت نے ہمیں دی،کیونکہ ہم اسے زکوۃکہیں گے تو ہوسکتا ہے اسے احساس محرومی ہو، احساس کمتری ہو،یہ وہ جھجکے لینے میں ، تو یہ آ پ کو تحفہ ہے اور نیت آپ کی زکوۃ کی ہے۔
آیا آپ نے نیا زکی انہیں یاد رکھیں۔آپ نے قربانی کی انہیں گوشت پہنچے ، آپ نے بکرا کاٹا اس نے گائے کاٹی انہوں نے آپ کو گوشت نہیں دیا۔کوئی بات نہیں آپ اپنے بکرے میں سے انہیں گوشت دیجئے۔ یہ اصول یاد رکھیں ایک ہوتا ہے مکافات ، مکافات معنی ادل بدل جیسے بولتے ہیں کہ اس نے اتنی بڑی گائے کی مجھے ایک بوٹی نہیں کھلائی،میں اپنے حصے میں سے اسے نلیاں کیسے دوں۔اسے چانپیں کیسے دوں ، اس نے میرے کو نہیں دیا میں بھی نہیں دوں گا۔ آج کل کا معمول ہمارا یہ ہی ہے ، مکافات حسن سلوک کی تعریف میں نہیں آئے گا کہ اس نے سلو ک کردیا لہذا ہم بھی کردیں ۔ حسن سلوک یا صلہ اسی صورت میں کہلائے گا اگر اس نے ہمارے ساتھ نہیں بھی کیا پھر بھی ہم نے بڑھ کر اس کے ساتھ کیا۔
جو رشتہ کاٹتا ہے وہ کتنا بدنصیب ہے آپ اس حدیث سے اندازہ لگایں اور آپ ہاتھ کانوں پر رکھ کر ندامت کا اظہار کریں اوراگر اس میں مبتلا ہیں تو اس سے توبہ کیجئے۔ اللہ عزوجل کے محبوب دانائے غیوب منزہ عن العیوب عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایاکہ
رشتہ داروں سے قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
علامہ نووی علیہ رحمتہ القوی فرماتے ہیں کہ اس سے مرادہے کہ وہ جنت میں نہیں جائے گا۔اس کی دو صورتیں بیان کی ہیں ۔ اسے پتہ ہو کہ قطع رحمی حرام ہے۔ اس کے باوجود وہ رشتے داری کاٹنے کو حلال جانتاہو۔ اب کیوں کہ وہ کافر ہوگیا ، اس لئے وہ جنت میں نہیں جائے گا،وہ کبھی بھی نہیں جائے گا۔ دوسری صورت وہ اس کو حرام تو سمجھتا ہو۔ لیکن نفس کی شرارت کی وجہ سے وہ رشتے داری کاٹتا ہے۔ تو ابتداً جنت میں نہیں جائے گا۔ اللہ کے کرم پر ہے کہ وہ بے حساب کرم فرمادے اور بے حساب بخش دے۔ تو کر م ہے اس کو فضل ہے۔ورنہ ہواپنی سزاء جتنی دیر بھی اسے سزا ملے وہ کاٹ کرداخل جنت ہو ۔ بہرحال یہ کہ ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصے اربوں کھربویں حصے برابرذرہ ذرہ ذرہ برابر بھی جہنم کا عذاب کوئی برداشت کر ہی نہیں سکتا ۔ ہم تو اللہ تعالی سے یہ ہی التجاء کرتے ہیں کہ مولا ہمیں بے حساب بخش دے،کہ ہم عذاب برداشت کرہی نہیں سکتے ۔
صلہ رحمی سے متعلق مزید مدنی پھولوں کے لئے کلک کریں۔
سبحان اللہ bohat khoob bohat ilm aur nasihat mili. جزاک اللہ خیرا
اللہُ اکبر
سبحان اللہ عزّوجلّ
پڑھ کر آنکھوں میں آنسوں آگئے۔االلہ عزوجل ہم سب کو حسن سلوک کرنے کی فکر عطا فرمائے۔آمین
very nice article for all of us. it is light in life especially for this era.
جزاک الله خیرا
Very Nice!
Dil roshan ho gya parh kar.
This Madani pearl give us many ideas of peace and pleasure. May Allah shower His blessings on Ameer-e-Ahle Sunnat دامت برکاتھم العالیہ.
ما شاء اللہ عزّوجل ! Bohot acha laga article ko parh kar.