Tarjuma Kanzul Irfan Ka Taruf Aur Khususiyat
June 01,2022 - Published 2 years ago
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ترجمہ کنز العرفان کا تعارف اورخصوصیات
ترجمہ قرآن کی اہمیت:
اگر لوگوں کی عمومی زبان علوم و فنون کی زبان سے مختلف ہو تو یہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ ایسے علوم کا عام لوگوں کی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔چونکہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا ، جسے اہل عجم کے لیے سمجھنا اور ہر ایک شخص کے لیے بآسانی عربی زبان سیکھنا ،عربی قواعد سے آ گاہی حاصل کرنا بھی ممکن نہیں تھا ، جبکہ اسلام کی تعلیمات میں قرآن کریم کے فہم کو بنیادی حثیث حاصل ہے ۔ اللہ تعالی کے کلام کو درست تناظر میں سمجھنا ہی دراصل دینی تعلیمات کی بنیاد ہے ۔ اسی لیے ہر دور کے علمائے حقہ نے اپنے عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی تعلیمات کے فہم کو عام انسانوں تک منتقل کرنے کے لیے بے انتہاء کوششیں فرمائی ہیں۔
علمائے کرام نے اپنے اپنے زمانے کے عصری تقاضوں کو سمجھا ، پھر اسی زبان ، لہجے اور انداز و اسلوب میں ترجمۃ القرآن و تفاسیر کے ذریعہ قرآنی تعلیمات کا فہم و شعور پیدا کیا۔
اردو زبان میں آ سان ترین ترجمہ قرآن کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
چونکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں دیگر امور میں جدت آگئی، اسی طرح ہر زبان کے الفاظ و معانی میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں ۔ فی زمانہ جہاں لوگوں کی اکثریت اردو زبان سے عام طور پر دور ہوتی جا رہی ہے ؛ اردو زبان کے قواعد و انشاء سے لوگوں کی نابلدی تعلیم حاصل نہ کرنے کی بناء پر یا انگریزی زبان کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے، یا اردو زبان میں پائی جانے والی الفاظ و معانی کی تبدیلیوں کی بناء پر بڑھتی جا رہی ہے ، تو ایسے دور میں ایک ایسے ترجمۂ قرآن کی شدت سے حاجت تھی ، جس میں آ سان ترین اردو میں کلام کیا گیا ہو ؛ جو مختلف طبقات کے لوگوں کے لیے یکساں مفید ہو ؛جس سے کم پڑھے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں اور اپنی دنیا و آخرت سنوار سکیں ۔
ترجمہ کنزالعرفان:
عوام الناس کی اسی ضرورت کے پیش نظر شیخ الحدیث قبلہ مفتی محمدقاسم عطاریدامت برکاتہم العالیہ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور عوام الناس کو ایک ایسا آ سان فہم ترجمۂ قرآن بنام کنز العرفان عطا فرمایا ، جو ترجمہ کنزالایمان کے تحت تحریر کیا گیااور نہایت ہی آ سان اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہے۔
ترجمہ کنزالعرفان کی خصوصیات:
1۔ اسلوبِ ترجمہ
2۔ا ندازِ بیان
3۔ آیات کے مقاصد کو پیشِ نظر رکھنا
4۔ صوتی حسن ، سلاستِ ترنم
5۔ فہم و تدبر
6۔فہمِ قرآن کو مزید سہل کرنے کے لیے آیاتِ قرآنیہ کے عنوانات لگائے گئے ہیں اور آیات کو مختلف رنگوں سے ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔
7۔نفسِ ترجمہ کے علاوہ مطلب سمجھنے کے لیے آیت کے جس لفظ یا مضمون کی وضاحت ضروری تھی ، اس کی تفہیم کے لیے مختصر اور جامع حواشیقائم کیے گئے۔
اسلوبِ ترجمہ :
پاک و ہند میں ترجمہ کرنے کے بالعموم دو اسلوب مروج ہیں : ایک اسلوب لفظی ترجمہ کا ہے ، جبکہ دوسرا با محاورہ ترجمہ کا ہے ۔ ترجمہ کنزالعرفان قرآن کریم کا ایسا ترجمہ ہے ، جو لفظی ترجمہ کے نقائص سے بھی مبرا ہے اور با محاورہ ترجمہ کی کمزوریوں سے بھی پاک ہے ۔ اس ترجمہ نے قرآنی عبارات کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ پڑھنے والا اسے پڑھ کر حتی الوسع ہر
لفظ کا معنیٰ بھی سمجھ سکتا ہے اور قرآن کریم کی حقیقی مراد اور مفہوم تک بھی بآسانی رسائی پا لیتا ہے ۔ ترجمہ کنزالعرفان نہ تو قدیم اسلوب کے اعتبار سے محض لفظی ترجمہ ہے اور نا ہی جدید اسلوب کے لحاظ سے فقط با محاورہ ہے ۔
ترجمہ کنزالعرفان کی نمایاں خصوصیت ہے کہ اس نے لفظی ترجمہ کے محاسن کے اعتبار سے قرآن کریم کے ہر ہر لفظ کا مفہوم اس طرح واضح کر دیا ہے کہ اسے پڑھ لینے کے بعد کسی لغت کی طرف رجوع کرنے کی حاجت نہیں رہتی اور بامحاورہ ترجمہ کے محاسن کو بھی اس خوبی و کمال کے ساتھ اپنے اندر سمو لیا ہے کہ عبارت میں کسی قسم کا بوجھ یا ثقل محسوس نہیں ہوتا۔
انداز بیان:
ترجمہ کنزالعرفان کا انداز بیان اس قدر اعلیٰ ہے جو بیک وقت درپیش تمام ضروری امور کو گھیرے ہوئے ہے ۔ ایسا سہل انداز بیان جس کےپڑھنے سے ذہن الجھن کا شکار نہ ہو ؛ دلچسپی بھی قائم رہے ؛جس میں گرائمر کے تمام قواعد و انشاء کی رعایت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہو ؛جملوں میں بھی ایسا ربط اور روانی ہو ، جو پڑھنے والے کی توجہ بٹنے نہ دے ، ترجمۂ کنز العرفان میں ہمیں ایسا ہی انداز ملے گا ۔
آیات کے مقاصد کو پیش نظر رکھنا:
ترجمہ قرآن میں مقصدیت کے پہلو سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم کسی خاص مقام پر جو خاص مضمون یا حقیقت بیان کرنا چاپتا ہے یا کسی واقعہ کے بیان میں جو خاص تاثر قائم کرنا چاپتا ہے ، ترجمہ کرتے ہوئے لفظوں کا انتحاب اس انداز میں کیا جائے کہ جو تصور قرآن کریم ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ، وہ تصور ترجمہ کے قالب میں ڈھل کر پڑھنے والے کے ذہن میں اتر جائے ۔ ترجمہ کنزالعرفان میں اس پہلو کو بھی بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
صوتی حسن:
قرآنِ پاک کے اسلوبِ بیان میں ایک اچھوتاصوتی حُسن منفرد ن نغمگی اور وجد آور صوتی سلاست ہے۔جس طرح ایک آبشار گرتی ہے اور اس سے سازِ فطرت کے تار جھڑتے ہیں ، اس کا احساس و اندازہ کوئی صاحبِ ذوق ہی کر سکتا ہے۔یہ مثال تو محض علامتی ہے ، خدا کے کلام میں جو ترنم صوتی حُسن ، نغمگی اور چاشنی ہے ، وہ ان استعاروں سے بالاتر ہے۔ بیانِ قرآن کے اس اعجاز کو بھی ترجمہ کنزالعرفان میں سمویا گیا ہے۔
جیسا کہ سورۂ شمس کی ان آیات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے:﴿ اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرت ۔۔۔عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّاۤ اَحْضَرَت ْ ؕ﴾ (ترجمہ کنزالعرفان:) ’’جب سورج کو لپیٹ دیاجائے گا اور جب تارے جھڑ پڑیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوٹی پھریں گی اور جب وحشی جانور جمع کیے جائیں گے اور جب سمندر سلگائے جائیں گےاور جب جانوں کوجوڑا جائے گا اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا: کس خطا کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا؟ اور جب نامۂ اعمال کھولے جائیں گےاور جب آسمان کھینچ لیا جائے گااور جب جہنم بھڑکائی جائے گی اور جب جنت قریب لائی جائے گی ۔ ہر جان کو معلوم ہوجائے گا جو حاضر لائی۔‘‘
اس ترجمہ میں کس قدر ترنم اور روانی ہے، اس سے بخوبی ظاہر ہورہی ہے ، البتہ حقیقت میں یہ آیات ِ قرآنی کا حسن اور کلام کا زورِ بیان ہے جس نے ترجمے کو بھی اپنا فیضان عطا کردیا۔
فہم و تدبر:
انسان کو مختلف مسائل میں مختلف کتب سے رجوع کرنا پڑتا ہے ۔ لغت قرآن کریم کے الفاط کے معنیٰ سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔ کتب فقہ سے مسائل فقہ پر آگہی ملتی ہے ۔ اسی طرح دیگر علوم و فنون کے لیے مختلف کتب سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ترجمہ کنزالعرفان فہم و تدبر کے اعتبار سے ایسا شاندار ترجمہ ہے کہ وہ علوم و مطالب جو تفاسیر کے اَن گنت اوراق پر بکھرے پڑے ہیں ، ترجمہ کنزالعرفان میں ان کو سمویا گیا ہے ۔ وہ فقہی مسائل جن کے لیے بڑی بڑی کتب کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے ، ترجمہ کنز العرفان میں انہیں کمال اختصار کے ساتھ بیان کیا گیاہے ۔
اللہ کریم ہم سب کو قرآنِ پاک کی تعلیمات پر حقیقی معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
مُحرِّرہ :بنتِ سرور عطاریہ مدنیہ
طالبہ : تخصص فی الفقہ
۲۱ شوال المکرم ، ۱۴۴۳ ھ / 23 مئی ، 2022