اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿ وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶)﴾
ترجمہ: اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے عِلم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (پ 15، بنی اسرائیل: 36) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر:جس بات کا عِلم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے
مُراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا
ہے اور جس بات کو سُنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ
نہ کہو کہ میں نے سنا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی
نہ دو۔ حضرت سَیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا: اس سے مراد
یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو۔(مدارک،ج1،
ص714) تمام
اَقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر
جھوٹے اقوال کی مُمانَعَت کی گئی ہے۔
جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت:
یاد رہے! کہ ”جھوٹی گواہی
دینا“ اور کسی پر جان بوجھ کر ”غلط الزام لگانا“ انتہائی مذموم فعل ہے۔
یہاں ان سے متعلق تین احادیث ملاحظہ ہوں: (1)جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ
پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے
جہنم واجب کر دے گا۔(ابنِ ماجہ،ج3، ص123، حدیث: 2373) (2)جس نے کسی مسلمان کو
ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل
پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داؤد،ج
4، ص354، حدیث: 4883) (3)جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا
الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہتعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے
مقام) ”رَدْغَۃُ الْخَبَالْ“ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ
اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا لے۔ (مصنف عبد الرزاق،ج11، ص425، حدیث:
20905)
جھوٹی گواہی اور الزام تراشی میں لوگوں کی حالت زار:
افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا
جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل
کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت
مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سُنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا یا آپ کی بات
کا مطلب ہی یہی تھا، اب کس نے بتایا؟ بتانے والا کتنا مُعْتَبَر تھا؟ اُس کو کہاں سے پتا چلا؟ اُس کے پاس
کیا قابلِ قبول ثبوت ہیں؟ اُس نے بات کرنے والے کے دل کا حال کیسے جان لیا؟ کوئی
معلوم نہیں۔ زیرِ تفسیر آیت اور بیان کردہ
احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز ِعمل پر غور کرنے کی شدید
حاجت ہے۔
کان، آنکھ اور دل کے بارے میں سوال ہوگا:
آیت کے آخر میں فرمایا کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا، یہ سوال اس طرح کا ہو گا کہ تم نے اُن سے کیا کام لیا؟ کان کو قراٰن و حدیث، عِلم و حکمت، وعظ و نصیحت اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں سننے میں استعمال کیا یا لغو، بےکار، غیبت، اِلزام تراشی، زنا کی تہمت، گانےباجے اور فحش سننے میں لگایا۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں، ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں استعمال کیا اور دل میں صحیح عقائد اور اچھے اور نیک خیالات و جذبات تھے یا غلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے بھرے خیالات ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹی گواہی اور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اعضا کو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِطاعت اور رضا و خوشنودی والے کاموں میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مفتی محمد قاسم
عطاری
٭…دارالافتاءاہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments