پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیو!صَدیوں پرانی بات ہے، ایک لڑکا’’اَنْدُلُس‘‘(اسپینSpain) کے مشہور شہر ’’قُرْطُبَہ‘‘ (Cordoba) میں رہاکرتا تھا ، اُسے علمِ دین حاصل کرنے کا بہت شوق تھا ،وہ مختلف عُلَما کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ان سے علم حاصل کیا کرتا ۔ علم حاصل کرنے کے شوق میں وہ ’’اَنْدُلُس‘‘ سے ’’مدینہ مُنَوّرہ‘‘جا پہنچا اور وہاں ایک بہت بڑے عالمِ دین (Scholar)سے محنت اورلگن کے ساتھ علم حاصل کرنے لگا۔
ایک دن حسبِ معمول پڑھائی کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک شور مچ گیا: ’’ہاتھی آیا ! ہاتھی آیا!‘‘بس ! پھر کیا تھا ! بچے پڑھائی چھوڑ کر ہاتھی (Elephant) دیکھنے کے لئے دوڑ پڑے ، سارا دَرَجہ(Class) خالی ہوگیا ، لیکن یہ کیا!’’اَنْدُلُس‘‘سے آیا ہوا طالبِ علم اپنی جگہ پر ہی بیٹھا رہا ۔ استاد صاحب نے اسے اکیلا بیٹھے دیکھا تو فرمایا : ’’بیٹا ! آپ بھی ہاتھی دیکھنے چلے جاتے ، کیونکہ آپ کے ملک ’’اَنْدُلُس‘‘ میں تو ہاتھی نہیں پائے جاتے۔‘‘استادِ محترم کی بات سننے کے بعد وہ لڑکا بولا: استاد صاحِب !میں اپنے ملک سے ہاتھی دیکھنے نہیں بلکہ آپ سے علم حاصل کرنے حاضر ہوا ہوں۔ استادِ محترم کو اُس سعادت مند طالبِ علم کے یہ جذبات بہت پسند آئے اور انہوں نے اُسے ”عَاقِلُ اَہْلِ الْاَنْدُلُسْ(یعنی اندلس کا عقلمند اور ذہین لڑکا)‘‘لقب عطا فرمایا ، آگے چل کر یہ لڑکا علمِ حدیث کا بہت بڑا عالم اور فقیہ بنا۔
(وفيات الاعيان ،ج5، ص117ملخصاً)
پیارے مَدَنی مُنّواور مَدَنی مُنّیو!پتا ہے ! ’’اَنْدُلُس‘‘کا یہ عقلمند اور ذہین لڑکا کون تھا ؟اِس لڑکے کو آج اِہلِ علم طَبَقَہ حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ بن یحییٰ قُرْطُبِی اَنْدُلُسی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکے نام سے جانتا اور پہچانتا ہے ۔ حکایت میں مذکور آپ کے اُستاد”مالِکیوں“ کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا مالک بن اَنَس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہتھے۔
اس حکایت سے ملنے والے مدنی پھول
آئیے ! اب ہم غور کرتے ہیں کہ ہمیں اِس حکایت سے کیا سیکھنے کو ملا ، ہمیں اس حکایت سے معلوم ہوا کہ ٭علْمِ دین حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا بُزرگوں کا طریقہ ہے،٭علْمِ دین حاصل کرنے کے لئے مکمل توجّہ اور سنجیدگی ضروری ہے، یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ ٭مَدرَسَۃُ المَدیْنَہ ہو یا دارُ المدینہ ،چوک درس ہو یامسجد درس ، مَدَنی مُذاکَرَہ ہو یا ہفتہ وار سنتوں بھرااجتماع ہمیں سب جگہ توجّہ کے ساتھ شریک ہو کر علمِ دین حاصل کرنا چاہیے ٭ کھیل کود، ہنسی مذاق یا دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مگن رہنے والا اپنا وقت ضائع کر بیٹھتا ہے ٭ یہ ذِہْن بھی ملتا ہے کہ اگر ہم دینِ اسلام کی صحیح طور پر خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اِس کے لئے آج ہی سے اپنی توجہ علمِ دین کے حصول کی طرف رکھنی چاہیے۔
خَصْلَت([1]) ہو مِری دور شرارت کی اِلٰہی |
سنجیدہ بنادے مجھے سنجیدہ بنادے |
میں فالتو باتوں سے رہوں دور ہمیشہ |
چپ رہنے کا اللہ سلیقہ تو سکھادے |
(وسائلِ بخشش مُرَمَّم ، ص 114۔115)
Comments