Book Name:Aklaq-e-Mustafa Ki Jhalkiyan

بستیوں کو تاخْتْ و تاراج(تباہ وبرباد) کرکے تہس نہس کر ڈالیں گی،ان مُجرموں کے سِینوں میں خوف وہِراس کا طُوفان اُٹھ رہا تھا۔ دَہْشَتْ اور ڈر سے ان کے بدنوں کی بوٹی بوٹی پَھڑک رہی تھی،دل دَھڑک رہے تھے، کلیجے مُنہ میں آگئے تھے ۔ اسی مایوسی اور نااُمّیدی کی خطرناک فَضا میں ایک دَم شَہَنْشاہِ رِسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نگاہِ رحمت اُن کی طرف مُتوَجّہ ہوئی اور اُن مُجرِموں سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا کہ بولو! تم کو کچھ معلوم ہے کہ آج میں تم سے کیا مُعامَلہ کرنے والا ہوں؟ اس دَہْشَتْ اَنگیز اور خوفناک سوال سے مُجرِم حواس باخْتہ ہو کر کانپ اُٹھے،لیکن جَبینِ رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر سب یَک زبان ہوکر بولے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ بڑے کرم والے ہیں ۔ 

سب کی للچائی ہوئی نظریں جَمال ِنُبُوَّت کا منہ تَک رہی تھیں اور سب کے کان شہنشاہِ نُبُوَّت کا فیصلہ کُن جواب سُنْنے کے مُنْتَظِر تھے کہ اک دَم فاتحِ مکّہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا :لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُآج تم پر کوئی اِلزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔

بالکل غیرمُتوقع طورپر اچانک یہ فرمانِ رِسالت سُن کر سب مُجرِموں کی آنکھیں فرطِ نَدامت سے اَشکبار ہوگئیں اور اُن کی زبانوں پر جاری ہونے والے لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ  اللہ کے نعروں سے حرمِ کعبہ کے در و دِیوار پر ہر طرف اَنْوار کی بارش ہونے لگی اور ایک دَم ایسا محسوس ہونے لگا کہ

جہاں تاریک تھا، بے نُور تھا اور سخت کالا تھا

کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں اُجالا تھا([1])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                            صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اُمُّ المومنین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا  فرماتی ہیں:مَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهٖ فِي شَيْءٍ قَطُّ یعنی رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کبھی کسی مُعاملے میں اپنی


 



[1] سیرتِ مصطفی،۴۳۷تا۴۴۱بتغیر قلیل