Book Name:Ilm-e-Deen Ki Fazilat Wa Ahmiyat
دینے لگے۔حضرتِ سیِّدُنا فَرُّوخ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نمازاداکرنےمسجد میں گئے تو دیکھا کہ ایک حلقہ لگا ہوا ہے اورلوگ بڑے ادب وتوجہ سے علمِ دین سیکھ رہے ہیں اورایک خوبرونوجوان انہیں درس دے رہا ہے ۔ انہوں نے لوگوں سے پوچھا: یہ کون صاحب ہیں، جو علم کے موتی لٹا رہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا:یہ ربیعہ بن ابوعبدالرحمن ہیں یہ سن کروہ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا: اللہ ربُّ العزَّت نے میرے بیٹے کو کیسا عظیم مرتبہ عطا فرمایاہے۔پھرآپ گھر تشریف لائے اور اپنی زوجہ سے فرمایا:میں نے تمہارے لختِ جگر کو آج عظیم مرتبے پر فائز دیکھاہے وہ تو علم کے موتی لٹانے والا سمندر ہے۔ آپ کی زوجۂ محترمہ نے کہا : آپ کو اپنے تیس ہزار دینار چاہئیں یا اپنے بیٹے کی یہ عظمت وبلندی ۔کہا: خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم !مجھے تو اپنے بیٹے کی اس عظیم نعمت کے بدلے کچھ بھی نہیں چاہیے۔آپ کی زوجۂ محترمہ نے کہا: تو پھر سنئے! میں نے وہ تمام مال آپ کے بیٹے پر خرچ کر کے اسے علمِ دین سکھایاہے۔ یہ سن کر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہنے فرمایا: خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قسم!تم نے مال ضائع نہیں کیا بلکہ بہت اچھی جگہ خرچ کیاہے ۔(عیون الحکایات ،ص۲۳۴)
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت سے معلوم ہوا کہ علمِ دین ایک عظیم نعمت ہے اس کے حصول کیلئے مال خرچ کرنا بڑی سعادت کی بات ہے ۔ہمارے بزرگوں کی یہی سوچ ہواکرتی تھی اسی لئےحضرت ربیعہرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی والدہ نے ان کی تعلیم وتربیت پر خطیر رقم خرچ فرمادی اور جب حضرت ربیعہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے والد کو معلوم ہوا کہ میری رقم سے میرے بیٹے کوعلم دین حاصل کرکے عظیم مقام حاصل ہوا ہے تو خوش ہوکرزوجہ محترمہ سے فرمایا:تم نے میرا مال ضائع نہیں بلکہ بہت اچھی جگہ خرچ کیا ہے۔ ہمیں بھی نہ صرف خود بلکہ اپنی اولاد کو بھی علمِ دین سکھانا چاہیے، عِلْمِ دِین کے فضائل کی تو کیا ہی بات ہے؟ قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر علم اور علماء کے فضائل بیا ن ہوئے ہیں چنانچہ پارہ 3سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 18 میں ارشاد ہوتاہے: