Book Name:Aey Kash Fuzol Goi Ki Adat Nikal Jay
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یادرکھئے! بے سوچے سمجھے،جوآیا بول پڑنا، بے حد خطرناک نَتائج کاحامل ہوسکتا اور اللہپاک کی ہمیشہ ہمیشہ کی ناراضی کا باعِث بھی بن سکتا ہے۔ یقیناً زَبان کا قُفلِ مدینہ لگانے یعنی اپنے آپ کو غیرضَروری باتوں سے بچانے ہی میں عافیّت ہےکیونکہ جو زیادہ بولتا ہے عُمُوماً خطائیں(Mistakes) بھی زیادہ کرتا ہے، راز (Secret)بھی فاش کر ڈالتا ہے۔ غیبت وچغلی اور عیب جوئی جیسے گناہوں سے بچنا بھی ایسے شخص کیلئے بَہُت دشوار ہوتاہے بلکہ فضول بولنے کا عادی بعض اوقات مَعَاذَاللہ عَزَّ وَجَلَّ کُفریات بھی بک ڈالتا ہے۔آئیے! فضول گوئی کے چند نقصانات کے بارے میں سُنتے ہیں ، چنانچہ
یہ ایک حقیقت ہے کہ خاموشی اختیار کرنے میں ندامت وشَرمندگی کا اِمکان بہت کم ہوتا ہے، جبکہ زیادہ بولنے والے کو غلطی ہوجانے پر بارہا مُعافی مانگنی پڑتی ہے اوردل میں یہ پچھتاوا بھی رہتا ہے کہ اگر اس موقع پر کچھ نہ بولا ہوتا تو اچھا ہوتاچونکہ میرے بولنے پر سامنے والے نے مجھے کھری کھری سُناکر 4 آدمیوں میں ذلیل کردیا، جس سے میری عزّت ووقار بھی خراب ہوا ۔ یوں فضول گوئی کرنے والا شخص اپنی عزّت گنوا بیٹھتا ہے ، حضرت سیّدنا محمد بن نضر حارثیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے مَروِی ہے :زیادہ بولنے سے وقار یعنی رُعب (Dignity) جاتا رہتا ہے ۔ (الموسوعۃ لابن ابی الدنیا،رقم:۵۲،۷/۶۰)سچ ہے بول کر پچھتانے سے نہ بول کر پچھتانااچھا ہوتا ہے کہ جو زیادہ بولتا رہتا ہے وہ مصیبتوں میں بھی زیادہ پھنستا ہے۔
یاالٰہی! فالتو باتوں کی عادت دُور ہو