نفلی کاموں سے روکیں یا نہیں؟

آخر درست کیا ہے؟

نفلی کاموں سے روکیں یا نہیں؟

* مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2022ء

 نفل کا دائرہ بہت وسیع ہے ، اس کا تعلق نفلی نماز ، روزے ، صدقات ، حج ، تلاوت ، اَذْکار اور عام زندگی کے آداب و مستحبات سب کے ساتھ ہے۔ نفل کے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ ادا کریں تو ثواب ملے گا اور چھوڑ دیں تو کوئی گناہ نہیں ، لہٰذا اگر کوئی شخص اُنہیں ضروری قرار دے تو وہ غلطی پر ہے ، جیسے کھانا زمین پر بیٹھ کر کھانا سُنَّت ہے ، اگر کوئی کہے کہ لازم ہے ، تو وہ غلط کہتا ہے ، یونہی نماز کے اَوَّل آخِرجو غیر مُؤکَّدہ سنتیں اور نوافل ہیں ، اگر کوئی انہیں لازم قرار دیتا ہے تو وہ بالکل غلط کہہ رہا ہے ، لیکن اِس کے ساتھ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اِن نفلی کاموں کی ترغیب ضرور دی جائے کہ ترک کرنے پر گناہ نہ ہونا ایک الگ چیز ہے ، لیکن اُس عمل کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پسندیدہ ہونا ، نیز بخشش اور نیکیوں میں اضافے کا ذریعہ بننا دوسری چیز ہے۔

نوافل و مستحبات میں بہت سے فوائد ہیں۔ نوافل کاا یک فائدہ یہ ہے کہ وہ فی نفسہٖ ضروری تونہیں لیکن کسی ضروری چیز تک پہنچانے والے ہوتے ہیں ، مثلاً کیا آپ نے کوئی ایسا بندہ سنا یا دیکھا یا پڑھاجو تراویح کی بیس رکعتوں کا تو پابند ہو اور نمازِ عشاء نہ پڑھتا ہو؟یا کوئی شخص جو فجر کی سنتیں پڑھ کر گھر چلا جاتا ہو اور فرض نہ پڑھتا ہو ، یقیناً نہیں دیکھا ہوگا۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص ایسے نیک کام کررہا ہے جو ضروری نہیں تو اُسی قسم کے ضروری کام تو بدرجہ اَولیٰ کرے گا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک آدمی تہجد تو پڑھے لیکن فجر نہ پڑھے ، یونہی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک آدمی رجب اور شعبان کےتمام نفلی روزے رکھے لیکن رمضان کے فرض روزے چھوڑ دے۔ درحقیقت نوافل ، فرائض تک لے جانے والے ہوتےہیں۔

نوافل کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان کے فرائض میں جوکمی ہوگی وہ نوافل کے ذریعے پوری کی جائے گی ، چنانچہ ترمذی شریف میں ہے : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : روزِ قیامت آدمی سے اُس کے اعمال میں سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں کیا جائے گا ، پس اگر نماز ٹھیک رہی تو وہ کامیاب ہوگا اور اگر نماز (کا معاملہ) خراب ہوا تو وہ ناکام ہوگا اور اگر اس کے فرائض میں کوتاہی پائی جائے گی تو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ دیکھو اِس بندے کے نوافل ہیں؟ پھر اس سے فرض کی کمی پوری کردی جائےگی ، پھر بقیہ اعمال میں بھی یہی معاملہ ہوگا۔ (ترمذی ، 1 / 421 ، حدیث : 413)

نوافل اورمستحب کاموں کا تیسرا فائدہ بڑا دلچسپ اور حیرت انگیزہے اور وہ یہ کہ بعض اُمور اگرچہ فی نفسہ صرف مستحب ہوتے ہیں ، بلکہ محض تَمَدُّنی مستحبات میں سے ہوتے ہیں ، لیکن وہ گناہوں کے آگے ایسے ڈھال بن جاتے ہیں کہ شاید بعض ضروری نیکیاں بھی اُس طرح گناہوں سے روکنے والی نہ بنیں ، مثلاً اگر کسی کا سُنَّت کے مطابق حلیہ اور لباس ہو کہ چہرے پر داڑھی ہو ، سر پر عمامہ ہو اور صالحین کی اِتباع میں سر پر چادر ہو ، تو کیا ایسے حلیے اور لباس والا شخص سینما (Cinema) جائے گا؟ سودا بیچنے میں ڈنڈی مارے گا؟ فحش گفتگو کرے گا؟ کسی کو گالی دے گا؟ بازار میں لوفروں ، لفنگوں والی حرکتیں کرے گا؟ غیر محرم عورتوں کو بری نظر سے دیکھے گا؟ غالب یہی ہے کہ ہرگز نہیں کرے گاکیونکہ اگر کوئی ایسا کرے گا تو لوگ ہی بول اٹھیں گے ، ارے بھائی کمال کرتے ہو!مولوی ہوکر یا داڑھی رکھ کر یا عمامہ پہن کر ایسے کام کررہے ہو۔ اِس سے واضح ہوا کہ یہ مستحبات گناہوں کے آگے ڈھال بنے رہتے ہیں۔ یونہی غور کریں کہ اگر کوئی شخص عمامہ باندھ کر نماز کے وقت آرام سے بیٹھا گپیں مار رہا ہو تو جو دیگر افراد وہاں بیٹھے ہوں گے ، جنہوں نےنماز نہیں پڑھنی وہ بھی باعمامہ شخص سے کہہ دیں گے کہ مولوی صاحب اذان ہوگئی ہے ، جماعت ہورہی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اصل حکم تویہ ہے کہ ہم گناہ سے بچیں ، حرام سے بچیں ، فرائض ادا کرنے والے بنیں ، لیکن یہ نفلی کام ہمیں اُن فرائض تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ بہت سے مستحبات و نوافل کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ فرائض و واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں سے بچنے میں بہت زیادہ معاون ثابت ہوتے ہیں۔

نوافل و مستحبات کے ساتھ وابستگی کے پیچھے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ عبادت کا ہر طریقہ خدا سے تعلق کا ذریعہ ہے۔ حکمِ شرعی یہ ہے کہ فرائض کو لازمی طور پر مُقَدَّم کیا جائے اور فرائض کی تکمیل کے بعد نوافل کی طرف آئیں ، ورنہ اندیشہ ہے کہ نوافل بھی قبول نہ ہوں لیکن اس کے ساتھ بہرحال ہر عبادت و طاعت میں اللہ تعالیٰ سے تعلق کا پہلو ضرور موجود ہوتا ہے۔

فرائض و واجبات میں تو کچھ کو اپنانے اور کچھ کو چھوڑنے کا اختیار نہیں ہوتا ، وہ تو تمام کے تمام ہی ادا کرنے ہوتے ہیں ، لیکن نوافل کی دنیا بہت وسیع ہے اور ہر نفلی کام خدا تک پہنچانے میں مُعاوِن ہے۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستے مخلوق کی سانسوں کی تعداد کے برابر ہیں۔ اس لیے نوافل میں جسے چاہیں اختیار کرلیں ، اس میں لوگوں کے ذوق مختلف ہوتے ہیں : کوئی نماز کا زیادہ شائق ہوتا اور کوئی روزوں کا ذوق زیادہ رکھتا ہے ، کسی کو حج و عمرے میں زیادہ لطف محسوس ہوتا ہے اور کسی کو ذکر اللہ سے راحت ملتی ہے ، کسی کو تلاوت سے رَغْبت بہت زیادہ ہے اورکسی کو درود پاک سے مَحَبَّت ہے ، کسی کو غریبوں کو کھانا کھلانے میں مزہ آتا ہے اورکسی کو مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرنے میں خوشی ملتی ہے ، کوئی ماں باپ کی خدمت میں بہت مُسْتَعِد رہتا ہے اورکوئی لوگوں سے گفتگو حسنِ اخلاق سے کرتا ، مسکرا کر ملتا اور دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ لے آتا ہے۔ یوں ہزاروں راستے ہیں جن پر چل کر بندہ خدا سے تعلق مضبوط کرسکتا اور منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بندہ میرا قُرب سب سے زِیادہ فرائض کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور نَوافل کے ذریعے مُسلسل قرب حاصل کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتاہوں۔ (بخاری ، 4 / 248 ، حدیث : 6502)

لہٰذا نوافل و مستحبات سے مَحَبَّت اختیار کریں ، اُنہیں اپنائیں ، اپنی زندگی میں شامل کریں اور اُن لوگوں سے دور رہیں اور ان کی بات نہ سنیں جو عبادت کی رغبت دینے کی بجائے ان سے دور کرنے پر دن رات کلام کرتے رہتے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنت ، فیضانِ مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code