شوّالُ المکرَّم میں عمرہ کرنےوالوں کیلئے حج کاحکم؟

شوّالُ المکرَّم میں  عمرہ کرنےوالوں کیلئے حج کا حکم؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ماہِ شوّال میں ہم مدینہ شریف سے نَمازِعِیدُالفِطْرپڑھ  کر عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر مکہ شریف روانہ ہوئے اور عمرہ اداکرنے کے بعددوچاردن کے بعدمکہ شریف سے اپنے وطن پاکستان روانہ ہوئے ، کچھ حضرات کاکہناہے کہ جس نے پہلے فرض حج اداکرلیا ہووہ توشوّال میں مکہ شریف جاکراپنے وطن واپس آسکتاہے لیکن جس نے ابھی فرض حج ادانہیں کیا وہ اگرماہِ شوّال میں مکہ شریف کی حدود میں داخل ہوجائے تو اب بغیرحج کیے واپس نہیں آسکتا ، شرعی راہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ بات درست ہے کہ جس نے فرض حج ادانہیں کیاوہ شوّال کے مہینے میں مکہ شریف گیاتواب بغیرحج کیے واپس نہیں پلٹ سکتا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حج کی فرضیت کے لیےدیگر شرائط کے ساتھ ساتھ زادِراہ پر قدرت ہوناشرط ہے جسے اِستطاعت کے ساتھ بھی تعبیر کیا جاتا ہے اورزادِراہ میں مکّۂ مکرمہ تک آنے جانے ، وہاں رہنے کے خرچے پرنیزواپس اپنے وطن آنے  کے زمانے تک اپنے اور اپنے اہل و عیال کے نان و نفقہ پر حاجتِ اصلیہ سے زائد قدرت ہونا ضروری ہے ، لہٰذاماہِ شوّال میں جوشخص مکّۂ مکرمہ میں موجودہے اور اس کے پاس یہ تمام خرچے نہیں ہیں تواس پر حج فرض نہیں ہوا پس حج کی ادائیگی بھی اس پرلازم نہیں تو وہ اپنے وطن واپس آسکتاہے ، اور جب تک استطاعت نہ پائی جائے اس پرحج کی ادائیگی کے لیے آنا لازم نہیں ہوگا ، اور اگر اس کے پاس یہ تمام خرچے ہیں تو اس پر حج فرض ہوچکا اور اب اگرویزہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت اسے نکال دے گی تو اب وہ محصر کے حکم میں ہوجائے گاتواس سال وہ وطن واپس آجائے اس وجہ سے وہ گنہگارنہیں ہوگا اورآئندہ سال اس پر حج کی ادائیگی لازم ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مجیب                                                                                                                                                                  مصدق

                            محمد عرفان عطاری                          مفتی محمد ہاشم خان عطاری

مرد کا غیر  شرعی انگوٹھی بنانا اور بیچنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ چاندی کی غیر شرعی انگوٹھی مثلاًمردانہ انگوٹھی کہ  ساڑھے چار ماشے سے زائد وزن  کی ہو یا دو نگ لگے ہوں بنانا اور بیچنا کیسا؟نیزایسی انگوٹھی پہن کر امامت کروانے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کاکیا حکم ہے؟ 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

چاندی کی غیرشرعی انگوٹھی مثلاًمردانہ انگوٹھی کہ ساڑھے چار ماشے سے زائد وزن کی ہو یا دو نگ لگے ہوں ، بنانا اور اس کی خرید و فروخت کرنا ناجائز و گناہ ہے کہ مرد کے لیے ایسی انگوٹھی پہننا حرام ہے اور ایسی انگوٹھی بنانا اور بیچنا گناہ پر معاونت ہے اورگناہ پرمعاونت کرناگناہ ہے۔

ایسی انگوٹھی پہننے والا شخص فاسقِ معلن ہے۔ ایسے شخص کو امام بنانا گناہ اور اس کی امامت مکروہِ تحریمی ہے۔ اگر کوئی  نماز اس کی امامت میں پڑھی ہے تواس کا لوٹانا واجب ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبـــــــــــــــــہ

مفتی محمد ہاشم خان عطاری

 نابالغ لڑکوں کے کان میں سونے کی بالیاں ڈالناکیسا؟

 سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نابالغ لڑکوں کے کان چھدوا کران میں سونے کی بالیاں ڈالناکیساہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

نابالغ لڑکوں کے کان چھدواناحرام ہے اوران کوسونے کی بالیاں یاسونے کےدیگرزیورات پہناناحرام ہے  اوران کے کان چھدوانے والے اورزیورات پہنانے والے گنہگارہوں گے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبـــــــــــــــــہ

مفتی محمد ہاشم خان عطاری

مخصوص دکانداروں کو مال بیچنے کی شرط لگانا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید ایک سیلز مین ہے جو اپنی رقم سے کمپنی سے مال خریدتا ہے ، کمپنی کا ملازم نہیں ہے ، کمپنی مال بیچنے میں یہ شرط لگاتی ہے کہ آپ کا یہ روٹ ہے یعنی مخصوص دکانداروں کو مال بیچنے کی شرط لگاتی ہے۔ کیا یہ بیع جائز ہے ؟اور زید ان مخصوص دکانداروں کے علاوہ کسی کو وہ مال بیچ سکتا ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مذکورہ خریدوفروخت جائز ہےاور زید کا اس چیز کو کمپنی کے مقررکردہ دکانداروں  کے علاوہ کو بیچنا بھی جائز ہے کیونکہ  عقد میں ایسی شرط بیع کو فاسد کرتی ہے جو عقد کے تقاضا کے خلاف ہو اور اس میں بیچنے والےیاخریدنے والےیاجس چیز کو بیچاگیا ہو اس کا فائدہ ہو جبکہ مذکورہ صورت میں ان تینوں میں سے کسی کا فائدہ نہیں ہے ، ایسی صورت میں  شرط لغواور بیع جائز ہوتی ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبـــــــــــــــــہ

مفتی محمد ہاشم خان عطاری


Share