لعنت کے اسباب/لعنت در حقیقت کیا ہے؟

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہماراروزمرہ کا مُشَاہَدہ ہے کہ لوگ بلا جھجھک (Without Hesitation) ایک دوسرے پر لعنت کرتے رہتے ہیں اور انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر قبیح(بُرے) فعل کا اِرْتِکاب کر رہے ہیں ۔

لعنت در حقیقت کیا ہے؟ حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: لعنت یعنی رحمتِ الٰہی سے دور ہوجانے کی بددعا کرنا ۔([1]) فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے: لَعْنُ الْمُؤْمِنِ كَقَتْلِهٖ یعنی مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے۔ ([2]) حضرت علّامہ عبدالرءوف مُناوی علیہ رحمۃ اللہ الکافی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:یعنی اس گناہ کوقتل کے گناہ کا دَرَجہ دیا گیا ہے۔([3])

بَسااوقات کسی بدنامِ زمانہ شخص کو لعنت کا ہَدَف(Target) بنایا جاتا ہے، اس بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کے والد ماجد رَئِیسُ الْمُتَکَلِّمِیْن حضرت علّامہ مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ الحنَّان فرماتے ہیں: کسی پرلعنت کرنا ثواب نہیں، اگر کوئی شخص دن بھر شیطان پر لعنت کرتا رہے، کیا فائدہ! اس سے بہتر کہ اس قدر وقت ذکرودُرُود میں صَرْف کرے کہ عظیم ثواب ہاتھ آئے، اگر اس کام میں ہمارے لئے کچھ فائدہ ہوتا تو اللہ پاک شیطان پر لعنت کرنے کا حکم دیتا، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ جس کے (کفرپر) مرنے کی (یقینی) خبر نہ ہو اس پرلعنت نہ کرے اگر وہ لعنت کے لائق ہے تو اس پر لعنت کہنے میں وقت ضائع کرنا ہے اور اگر وہ لعنت کا مُسْتَحِق نہیں توبے وجہ گناہ اپنے سر لینا ہے۔([4]) یہاں تک کہ بے جان چیزوں پر بھی لعنت کرنے کو منع فرمایا گیا اور بےقُصور پر لعنت کرنےوالے کو لعنت کاحقدار بننا قرار دیا گیا جیساکہ حدیثِ پاک میں ہے کہ ایک بار نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس ایک شخص نے کسی سبب سے ہوا (Air) کو بُرا بھلاکہا اس پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَم نے ارشاد فرمایا: ہوا کو بُرا بھلا نہ کہو کیونکہ یہ تو (اللہ پاک کے)حکم کی پابند ہے، جس نے کسی ایسی چیز پر لعنت کی جس کی وہ اہل نہ تھی تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آئے گی۔([5])

خوش قسمتی سے اگر ہم لعنت کرنے کے مذموم(قابل مَذَمَّت) عمل سے بچے ہوئے بھی ہوں مگر بدقسمتی سےایسے کئی غیر شرعی کاموں میں مبتلا ہوتے ہیں جو ہمیں لعنت کا مُسْتَحِق بنارہے ہوتے ہیں، قراٰنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں ایسے کئی بدنصیب لوگوں کا ذکر ہوا ہے، جن کو ذیل میں مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

مُعاشرتی لحاظ سے جھوٹ بولنے والا([6])، والدین کو گالی دینے والا([7])،شوہر کی ناراضی میں رات گزارنے والی عورت([8])، دوسروں کو بُرے نام سے پکارنے والا([9])، فتنہ و فساد پھیلانے والا([10])، پَارْسا عورت پر بُرائی کا اِلزام لگانے والا([11])، دریا یا تالاب کے کنارے یا بیچ راستے میں یا پھر درخت کے سایہ میں پیشاب کرنے والا([12]) اورزبردستی لوگوں پر حاکم بننے والا([13]) لعنت کے عِتاب میں گرفتار ہیں۔

بننے سنورنے کے لحاظ سے مرد جو عورتوں کی اور عورت جو مردوں کی صورت اپنائے([14])، کسی انسان یا اپنے ہی بالوں کو سر کے بالوں میں جوڑنے والی، جُڑوانے والی،اسی طرح ابرو (Eye Brow)کے بال نوچ کر خوبصورت بنانے اور بنوانے والی اورکسی نوک دار چیز کے ذریعہ جلد میں رنگ بھرنے، نقش و نگار(Tattoos)بنانے یا پھر نام لکھنے والی اوریہ عمل کروانے والی عورت بھی لعنت کی سزاوار ہے۔([15])

مُعاشی لحاظ سے سودلینےاوردینے والا، اس کے کاغذات (Documents)تیار کرنے والا اور اس پرگواہ بننےوالا([16])، شراب بنانے، بنوانے اوربیچنے والا، اس کی قیمت کھانے والا، شراب خریدنے والا اور جس کے لئے شراب خریدی گئی سب لعنت کے مستحق ہیں۔ اس کے علاوہ شراب پینے پلانے والے، شراب اُٹھانے والے اور جس کے پاس شراب اُٹھا کر لائی گئی یہ سب بھی ملعون ہیں۔([17])

دینی لحاظ سے جس نے کفر کیا اور کفر پر مرا ([18])، اللہکی وَحْدَانِیّت اور نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت کا انکار کرکے([19]) اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچانے والا([20])، بغیر علم کے شَرْعی مسائل بتانے والا([21])، تقدیر کو جھٹلانے والا، اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھنے والا، سنتِ رسول کوچھوڑدینے والا([22])اوربحیثیتِ قوم لوگوں کا نیکی کی بات کا حکم نہ دینا ، بُرائی سے منع نہ کرنااورظالم کو ظلم سے روک کر اسے درست بات کی طرف نہ لانا بھی لعنت کا سبب ہے۔([23]) اس کے علاوہ جانوروں کے چہرے پر داغنا یا چہرے پر مارنا([24])، نعمت ملنے پر ڈھول باجے بجانا اور مصیبت کے وقت چیخنا چلانا بھی لعنت کا سبب قرار دیا گیاہے۔ ([25])

یاد رکھئے!دینِ اسلام میں جن کافروں پر لعنت کی گئی وہ ہمیشہ کے لئے اللہکی رحمت اور جنّت سے دور ہوگئے جیسے ابوجَہْل، فرعون وغیرہ جبکہ جن گناہگار مسلمانوں پر لعنت کی گئی اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی خاص رَحْمتوں،قُربتوں سے دور ہونا ہے، اس صورت میں بحیثیتِ مجموعی لعنت کرنا تو جائز ہے جیسے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت اور ظالموں پر خدا کی لعنت کہہ سکتے ہیں، کسی خاص شخص پر لعنت نہیں کر سکتے۔([26])

آج کی بے سُکون زندگی میں ہماری بداعمالیوں کا بڑا دَخْل ہے جیساکہ کہ مذکورہ جرائم کا مُرْتَکِب ہونا رحمتِ الٰہی سے دور ہونے کا ایک سبب ہے یا دوسروں پر لَعْن طَعْن کرکے لڑائی جھگڑےکے ذریعےنفرتوں کے بیج بونا باہمی امن کے تباہ ہونےکی ایک بڑی وجہ ہے لہٰذا غضبِ الٰہی سے بچنے، رَحمتِ خداوندی پانے، گھریلواور معاشرتی امن و امان حاصل کرنے کے لئے ہمیں دینِ اسلام میں بیان کئے گئے لعنت کا مستحق بنانے والے اعمال سے بچنا ہوگاساتھ ہی لَعْن طَعْن کرنےکے مذموم عمل کو بھی ترک کرنا ہوگا۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مؤمن کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: مؤمن نہ طعنہ دینےوالا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فُحْش بکنے والا بے ہودہ ہوتا ہے۔([27])

اللہ پاک ہمیں لعن طعن کرنے اور لعنت کے اسباب سے محفوظ فرمائے۔

اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ شعبہ فیضان اولیاءعلما،المدینۃالعلمیہ باب المدینہ کراچی



[1] مراۃالمناجیح،5/127

[2] بخاری،4/127،حدیث:6105

[3] فیض القدیر،5/472،تحت الحدیث:7621

[4] فضائل دعا ص197 بتغیر

[5] ترمذی، 3/394، حدیث:1985

[6] پ3،ال عمرٰن: 61

[7] صحیح ابن حبان، 4/298،حدیث:4400

[8] مسلم،ص578،حدیث:1436

[9] فیض القدیر، 6/163، تحت الحدیث:8666

[10] فیض القدیر،4/606، تحت الحدیث: 5975

[11] پ18،نور:23

[12] ابوداؤد،1/43،حدیث:26

[13] مسلم، ص623، حدیث:1508

[14] مسند احمد، 1/727، حدیث: 3151

[15] ابوداؤد،4/106، حدیث:4170، بہارِشریعت،3/596، مرقاۃ،8/ 245، تحت الحدیث:4468

[16] مسلم، ص663، حدیث:1598

[17] ترمذی، 3/47،حدیث:1299

[18] پ2،بقرہ:161

[19] مدارک،ص950

[20] پ22، احزاب:57

[21] کنزالعمال، جزء:10، 5/84، حدیث:29014

[22] مستدرک،3 /375، حدیث:3996

[23] ابوداؤد، 4/163، حدیث:4337

[24] ابوداؤد، 3/37، حدیث:2564

[25] کنزالعمال، جزء:8، 15/95،حدیث:40654

[26] فضائلِ دعا،ص192ملخصاً

[27] ترمذی،3/393، حدیث:1984۔


Share

لعنت کے اسباب/لعنت در حقیقت کیا ہے؟

انسان کاکردارو عمل اس کے تعارف (Introduction) کا ایک ذریعہ ہے، اگر کردار اچھا ہو تو اس شخص کو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے اور اگر کردار بُرا ہو تو معاشرے میں ایسے شخص کی کوئی عزّت نہیں ہوتی۔ تاریخ میں جہاں ایسی روشن و تابندہ ہستیاں گزری ہیں جن کا نام علم و فضل کی علامت اوراُن کا ذکر باعثِ برکت ہے وہیں ایسے بدکردار، ظالم و جَفا کار لوگ بھی گزرے ہیں کہ جو انسانیت کے نام پر بدنُما دَھبّہ بن گئے۔

تاریخ کا ایک ایسا ہی ظالم، جابر، فاسق و فاجر حکمران یزید پلید بھی گزرا ہے۔ یہ وہ بد نصیب شخص ہے جس کی پیشانی پر اہلِ بیتِ کرام اورصحابہ ٔ کرام علیہمُ الرِّضوان کے بےگناہ قتل کا سیاہ داغ ہے، جس پر ہر زمانے میں دنیائے اسلام ملامت کرتی رہی ہے اور قیامت تک اس کا نام تحقیر کے ساتھ لیا جاتا رہے گا۔ جب اس کے مظالم اور سیاہ کرتوتوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو روح تڑپ کر رہ جاتی ہے ۔ کردار و عمل اور حیا سے عاری یہ شخص گانے باجے کا دلدادہ، کتے پالنے کا شوقین اور شراب نوشی کا رَسْیا تھا، اکثر اوقات اس کے ہاں شراب کی ناپاک بزمیں جاری رہتیں۔(البدایۃ والنہایۃ،ج 5،ص749 ملتقطاً، انساب الاشراف للبلاذری،ج5،ص299ماخوذاً) جب یزید کو شراب کی حُرمت یاد دلائی جاتی تو یہ بدبخت کہتا: ”اگر دینِ احمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) میں شراب نوشی حرام ہے تو پھر مسیح ا بنِ مریم(علیہ السَّلام) کے دین پرپی لو۔“(اَسْتَغْفِرُاللہ)(روح البیان، پ1، البقرۃ،ج1،ص179،تحت الآیہ: 89)

یزید پلید کی بدبختی اور شقاوت کے ثبوت کے لئے یہی اعمال کافی تھے مگر اس بدبخت نے تین ایسے دل سوز کام کئے کہ ایک مسلمان کہلانے والا ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا، جب ان واقعات کا تصو ر ذہن میں آتا ہے تو دل خون کے آنسو رو تا اور کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔

(1)شہادتِ امام ِحسین رضی اللہ تعالٰی عنہ یزید پلید کے دور میں یزیدی لشکر نے نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول، گلشنِ رسول کے مہکتے پھول امامِ عالی مقام امام حسین اور آپ کے رُفَقا رضوان اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور نہایت بے دردی سے میدانِ کربلا میں شہید کر دیا، شہدائے کربلا کے جسموں کی بے حرمتی کی، ان کے بے گور و کفن مقدس جسموں کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندا۔(تاریخ طبری،ج5،ص454، 455ماخوذاً)

(2) واقعۂ حَرَّہ([1]) یزید نے مدینۂ طیبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعًظِیًماً کے مکینوں سے زبردستی بیعت لینے کے لئے ایک لشکر بھیجا جس نے مدینۂ طیبہ میں خون ریزی کا ایسا بازار گرم کیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، یزیدی لشکر نے مدینۂ طیبہ کے مکینوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی، وہاں کے سات سو نامور قریشی، انصاری اور مہاجرین کے علا وہ دس ہزار عام لوگوں کو قتل کیا جن میں آزاد، غلام، عورتیں اور بچے سب ہی شامل تھے۔

(وفاء الوفا،ج1،ص125ماخوذاً)

یزیدی لشکرنے صرف قتل وغارت ہی پر اِکْتِفا نہ کیا بلکہ وہاں پر خوب لوٹ مار مچائی، تین دن تک مدینۂ طیبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعًظِیًماً میں ہر ناجائز کام ان ظالموں نے کیا۔ (البدایۃ والنہایۃ،ج5،ص732 ماخوذاً) یزیدی لشکر نے مسجدِ نبوی شریف کی بھی شدید بےحُرمتی کی، جس مسجد میں رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام کے ساتھ نمازیں ادا فرمائیں اس پاکیزہ مسجد میں گھوڑے باندھے۔ (وفاء الوفا،ج 1،ص126 ماخوذاً)

ایامِ حرّہ میں مسجد نبوی میں تین دن تک اذان واقامت نہ ہوئی۔ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبر مبارک سے ہلکی آواز آتی جسے سن کرجلیل القدرتابعی بزرگ حضرت سعید بن مُسَیَّب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نمازوں کے اوقات پہچان لیتے تھے۔(مشکوٰۃ المصابیح،ج2،ص400، حدیث: 5951ملتقطا)

(3) مکۂ معظمہ پر حملہ اور بیتُ اللہ پر سنگ باری مدینۃُ الرَّسول میں لوٹ مار اور قتل و غارتگری کے بعد ان بدبختوں نے صحابیِ رسول حضرت سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنھما کو شہید کرنے کے لئے مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعًظِیًماً کا رُخ کیا، ان سنگ دلوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس حرمِ پاک کی عظمتیں قراٰن و حدیث میں بیان کی گئی ہیں، انسان تو انسان یہاں کے تو شجر و حجر کی بھی حفاظت کا حکم دیا گیا ہےمگر جب دل دنیا کی لالچ میں اندھے ہو چکے ہوں اور آنکھوں پر حرص و ہوس کے پردے پڑے ہوں تو پھر نہ خاندانِ رسول کا لحاظ رہتا ہے نہ حرمین طیبین کا پاس! ان لوگوں نے حضرت سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنھما کو شہید کرنے کی مکمل تیاری کی کیونکہ یہی ان کےراستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھے چنانچہ اس بےحِس و بے عقل لشکر نے مکۂ مکرمہ کا محاصرہ کر لیا، ایک ماہ سے زائد کےاس محاصرے سے جب کامیابی نہ ملی تو ان بدبختوں نے بیتُ اللہ شریف پر منجنیقوں سے سنگ باری شروع کردی، اس پتھراؤ کے نتیجے میں خانۂ کعبہ شریف میں آگ لگ گئی اور اس کے پردے جل گئے۔ کعبہ کی چھت پر حضرت سیّدنا اسماعیل علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے فدیے میں جنّت سے بھیجے گئے دُنبے کے سینگ محفوظ تھے وہ متبرک سینگ بھی اس آگ کی نذر ہو گئے۔ ابھی یہ قبیح افعال جاری ہی تھے کہ یزید پلید کی موت کی خبر آگئی۔ (تاریخ الخلفاء، ص167 مفہوماً، الکامل فی التاریخ ،ج3،ص464)

جس اِقتدار کی خاطر اس بد بخت نے کربلا میں ظلم و ستم کی آندھیاں چلائیں، مدینۂ طیبہ کے مکینوں کا خون اپنے سَر لیا، بیتُ اللہ کی عظمت و حُرمت کو پامال کیا وہ اقتدار اس کے لئے کچھ زیادہ ہی ناپائیدار ثابت ہوا۔ بدنصیب یزید پلید صرف تین برس اور چھ ماہ تختِ حکومت پر خباثتیں کر کے ربیع الاوّل 64ھ کو ملک شام کے شہر حمص کے علاقے حُوّارِین میں کم و بیش 39 سال کی عمر میں مر گیا۔(الکامل فی التاریخ ،ج3،ص464)

موت آئی پہلواں بھی چل دئیے

خوبصورت نوجواں بھی چل دئیے

دنیا میں رہ جائےگا یہ دبدبہ

زور تیرا خاک میں مل جائے گا

تیری طاقت تیرا فن عہدہ ترا

کچھ نہ کام آئے گا سرمایہ تیرا

(وسائلِ بخشش(مُرمّم)،ص709)



[1] مدینۂ منورہ کی مشرقی جانب ایک جگہ کانام ہے۔


Share

لعنت کے اسباب/لعنت در حقیقت کیا ہے؟

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشورا (10محرم الحرام) کودینِ اسلام میں خاص فضیلت حاصل ہے۔ہمیں شبِ عاشورا عبادت میں گزارنی چاہئے اور عاشورا کے دن روزہ بھی رکھنا چاہئے۔ ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اس دن کا بہت اکرام(عزت) فرماتے تھے چنانچہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں: میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوعاشورا اور رمضان المبارک کے علاوہ کسی دن کے روزے کو اور دن پر فضیلت دے کر جستجو (رغبت) فرماتے نہ دیکھا۔(بخاری،ج1،ص657، حدیث:2006) حضور نبیّ اکرم، نُورِمُجَسَّم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: رَمَضان کے بعدمُحرَّم کا روزہ افضل ہے اور فرض کے بعد افضل نماز صَلٰوۃُ اللَّیل (یعنی رات کی نفل نماز) ہے۔ (مسلم، ص456، حدیث:2755) جب بھی عاشورا کا روزہ رکھیں تو ساتھ ہی 9 یا 11 مُحرَّمُ الحرام کا روزہ بھی رکھ لینا بہتر ہے۔ اگر کسی نے صرف 10محرم الحرام کا روزہ رکھا تب بھی جائز ہے۔ مسلمان ماہ محرم میں دس 10 دنوں تک اور خصوصاً دسویں محرم کو کھانے پینے کی مختلف اشیاء مثلاً شربت، مٹھائی، بریانی، گوشت روٹی، کھچڑا وغیرہ پر فاتحہ دلا کر حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ و دیگر شہدائے کربلا کے ایصالِ ثواب کے لئے مسلمانوں کو کھلاتے اور بانٹتے ہیں، سبیلیں بھی لگاتے ہیں۔حقوق اللہ وحقوق العباد کا خیال رکھئے: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سبیل لگانااور لنگر بانٹناجائز اور کارثواب ہے مگران امور میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کاخیال رکھنا نہایت ہی ضروری ہے۔ ماہِ محرم الحرام میں بعض لو گ رات بھر جاگ کر شہدائےکربلا کے ایصال ثواب کیلئے کھچڑا تو بناتے ہیں لیکن مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ جماعت تو جماعت وقت کےاندر نماز پڑھنے میں بھی سستی کرجاتے ہیں۔یونہی بسااوقات کھچڑا وغیرہ نیاز بنانے کے لئے روڈ پر گڑھے وغیرہ کھودے جاتے ہیں جو بعد میں راہ گیروں کے لئے تکلیف کا سبب بنتے ہیں ،نیز رات بھر ٹیپ ریکارڈر پر بآواز بلند مختلف کلام چلائے جاتے ہیں جو عبادت یا آرام کرنے والوں کے لئے آزمائش کا باعث ہوتے ہیں۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ذرا غور فرمائیے!جن مقدس ہستیوں کے ایصالِ ثواب کے لئے آپ نیاز وغیرہ مستحب کام کر رہے ہیں کیا وہ جماعت ضائع اورنمازقضا کرنے نیز مسلمانوں کو تکلیف دینے وغیرہ گناہوں سے خوش ہوں گے یا ناراض ؟ ایک مستحب کام کرنے کے لئے کئی ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والے کاموں کا ارتکاب کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟

اگر واقعی اللہ و رسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضامندی مطلوب ہے اور شہدائے کربلا کا فیضان پانا چاہتے ہیں تو نیاز وغیرہ تیار کرنے سمیت زندگی کے ہر مرحلے پر شریعت کی پاسداری کو اپنا معمول بنالیجئے۔خبر دار !ان مستحب کاموں کے درمیان نہ راستہ بند یا تنگ ہو،نہ جماعت یا نماز چھوٹے اور نہ ہی کسی مسلمان کو تکلیف ہو ،عین شریعت کے مطابق یہ تمام کام کیجئے۔اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی برکت سے اسیران و شہدائے کربلا کا ایسا فیضان جاری ہوگا کہ آپ کی دنیا و آخرت سنور جائے گی اور اللہ کے کرم سے جنت میں ان مقدس ہستیوں کا قرب نصیب ہوگا۔

عشق میں پاسِ شریعت ہو ضرور

عاشقو یہ ہے ترازوئے حبیب

(قبالۂ بخشش،ص60)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ناظم المدینۃ العلمیہ ،باب المدین کراچی


Share

لعنت کے اسباب/لعنت در حقیقت کیا ہے؟

امامِ عالی مَقام حضرتِ سیِّدُنا امام حسینرضی اللہ تعالٰی عنہ کے اخلاق وعادات انتہائی اعلیٰ اور پاکیزہ تھےکیونکہ آپرضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس ہستی کے زیرِ سایہ پرورش پائی جن کے بارے میں اللہ ربُّ العزّت نے فرمایا: ( وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)) ترجمۂ کنزالایمان:بےشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔ (پ29، القلم:4) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے نانا جان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرح غُرَبا اور فُقَرا سے اُنسیت ومحبت رکھتے، ان کی دلجوئی فرماتے اور فخر وتکبر بالکل نہ کرتے تھے۔ امام عالی مقام کی عاجزی و انکساری ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ چند غریب لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، انہوں نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے عرض کی: ہمارے ساتھ کھانا تناول فرما لیجئے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمایا: بے شک اللہ پاک کسی اِتْرانے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ پھر ان سے فرمایا: میں نے تمہاری دعوت قبول کی ہے لہٰذا تم بھی میری دعوت قبول کرو۔انہوں نے لبیک کہا تو آپ انہیں اپنے ساتھ گھر لے آئے اور گھر والوں سے فرمایا: جو کچھ جمع پونجی رکھی ہے سب لے آؤ۔ (ابن عساکر،ج 14،ص181) راہِ خدا میں صدقہ و خیرات ایک سائل مدینہ پاک کی گلیوں سے ہوتا ہوا آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے درِ دولت پر پہنچا تو دروازے پر دستک دی اور اشعار کی صورت میں کہنے لگا: جس نے آپ سے امید رکھی اور جس نے آپ کے دروازے پر دستک دی وہ کبھی نا اُمید نہیں ہوا، آپ صاحب ِجود وکرم بلکہ جود وسخاوت کے چشمہ ہیں۔ آپرضی اللہ تعالٰی عنہ گھر میں مشغولِ نماز تھے، منگتا کی صدا سنتے ہی نماز کو مختصر کیا اور دروازے پر پہنچ گئے، دیکھا تو سامنے ایک دیہاتی کھڑا ہے جس کا شکستہ حال بھوک و اِفْلاس کا اعلان کر رہا ہے، امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے غلام”قَنْبَر“سےفرمایا: ہمارےخرچ میں سے کتنا مال بچا ہوا ہے؟ عرض کی: دو سو درہم ہیں جو آپ کے حکم کے مطابق آپ کے اہلِ خانہ پر خرچ کرنے ہیں۔ فرمایا: جاؤ سب لےآؤ کیونکہ وہ شخص آیا ہے جو میرے گھر والوں سے زیادہ ان درہموں کا حقدار ہے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے وہ درہم سائل کو دیئے اور فرمایا: یہ لے لو اور ان کے کم ہونے پر میں تم سے معافی چاہتا ہوں، ہمیں ہر حال میں مہربانی ہی کا حکم ہے، یہ کم ہیں اگر اور زیادہ ہوتے تو وہ بھی تمہیں دے دیتا۔ سائل نے درہم لئے اور آپ کو دعائیں دیتا اور تعریفیں کرتا ہوا خوشی خوشی رخصت ہو گیا۔(ابن عساکر،ج 14،ص185، ملخصاً) میدانِ کربلا میں خطبہ شہیدِ کربلا رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں عبادت و ریاضت اور زہد و تقویٰ کو اپنا لباسِ زندگی بنائے رکھا اور ہمیشہ اسی کی نصیحت فرماتے رہتے، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کثیر خطبات میں سے دلوں کو جھنجوڑ دینے والا ایک خطبہ وہ بھی ہے جوآپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے زمینِ کربلا پر اپنی شہادت والے دن کی صبح دیا، اللہکریم کی حمدو ثنا کے بعد کچھ اس طرح بیان فرمایا: اےاللہکے بندو! اللہ سے ڈرو اور دنیا سے بچو، اگر دنیا نے کسی کے لئے باقی رہنا ہوتا تو قضائے الٰہی پر سب سے بڑھ کر راضی رہنے والے، سب سے بڑھ کر اللہ پاک کا قرب پانے والے انبیائے کرام علیہمُ السَّلام اس بات کے زیادہ حقدار تھے کہ دنیا ان کے لئے باقی رہتی مگر بات یہ ہے کہ اللہ پاک نے دنیا کو امتحان اور اہلِ دنیا کو فنا کے لئے پیدا فرمایا ہے، دنیا کا نیا پرانا ہونے والا، اس کی نعمتیں اور لذتیں تھکا دینے والیں اور اس کا سرور انتہائی بے مزہ ہونے والا ہے، اس کا ہر گھر اور ہر منزل عارضی اور زوال پذیر ہےلہٰذا توشہ ساتھ لو بے شک! سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے۔ (ابن عساکر،ج 14،ص218) پیدل پچیس حج ادا کئے حضرت سیِّدُنا امام حسینرضی اللہ تعالٰی عنہ نماز، روزہ، صدقہ و خیرات، تلاوتِ قراٰن اور حج و عمرہ وغیرہ عبادات کثرت سے کیا کرتے تھے حتّی کہ تن سے جدا نیزے کی نوک پر بھی سر ِمبارک سے تلاوتِ قراٰن جاری رہی،آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حج کا بہت شوق تھا چنانچہ مروی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے 25 حج پیدل ادا کئے۔(ابن عساکر،ج 14،ص180)

اللہکریم سیرتِ امام حسین سے وافر حصّہ عطا فرما کر دنیاو آخرت میں سیّدنا امام حُسین کی حَسین غلامی نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…شعبہ تراجم ،المدینۃالعلمیہ ،باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code