Book Name:Aashiqon ka Hajj
عَزَّ وَجَلَّ اپنے دوستو ں کے دلوں کا مالِک ہے اوراگر توشہ(یعنی زادِ سفر) چاہتے ہو تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ پر یقین سب سے بہترین تَو شہ ہے اورکَعْبۃُ اللّٰہ کو اپنے سامنے تصوُّر کرتے ہوئے خُوشی سے اِس کاطَواف کرو۔‘‘ (بحرالدموع ص ۱۲۵ از عاشقانِ رسول کی 130حکایات،ص۱۰۱ )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!حضرتِ سَیِّدُنا حاتم اَصَمّ عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے کتنی
پیاری نصیحت فرمائی ۔ کاش ! کہ ہم بھی اس نصیحت پر عمل کرنے والے بن جائیں اور سَفرِ
حج کی عظمت اور اس کے مَقاصد کو سمجھنے والے بن جائیں۔عُموماً دیکھا گیا ہے کہ
بعض لوگ ہر سال حج وعُمرہ کے مُبارَک سفر پر روانہ ہوتے،کعبۃُاللہ شریف کی زِیارت اور اس کے طواف کا شَرَف پاتے
اوردیگر مَناسکِ حج کی اَدائیگی کے بعد روضہ ٔرسول کی حاضری کی سَعادت حاصل کرتے ہیں
لیکن جب لوٹتے ہیں تو حسبِ سابق گُناہوں بھری زِندگی میں مشغول ہوجاتے ہیں اوروہ
بُرائیاں جُوں کی تُوں ان میں باقی رہتی ہیں۔ ایسے اَفراد کو غور کرنا چاہیے کہ آخر
کیا وجہ ہے؟ان مُقدَّس مقامات کی بار بار حاضری کے باوُجُود بھی ہم اپنی اِصْلاح
نہیں کرسکے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سارے حَج وعُمرےصِرْف نَفْس کی خواہش اور
لوگوں کو دِکھانے اور خُود کو’’حاجی صاحب ‘‘کہلوانے کیلئے کئے ہوں؟کیونکہ لوگوں
کی نظر میں کثیر حج وعُمرہ کرنے اورعابد وزاہد کے نام سے مُتعارَف ہونے کی خواہش عبادات
میں بڑی سے بڑی مَشَقَّت بھی آسان کردیتی ہے ۔جیساکہ حضرتِ سَیِّدُنا ابُومحمد
مُرتَعِشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہفرماتے ہیں:’’ میں نے بَہُت سے حج کئے اوران میں
سے اَکْثر سَفرِ حج کسی قسم کا زادِ راہ لئے بِغیر کئے ۔پھر مجھ پر آشکار(یعنی ظاہر) ہوا کہ یہ سب تو میرے نَفْس کا دھوکا تھا کیونکہ ایک مرتبہ
میری ماں نے مجھے پانی کا گھڑا بھر کر لانے کا حکم دیا تو میرے نَفْس پر ان کا حکم
گِراں(یعنی ناگوار) گُزرا، چُنانچِہ میں نے سمجھ لیا کہ سَفرِ حج میں میرے نَفْس
نے میری مُوافَقَت فَقَط اپنی لذَّت کے لئے کی اور مجھے دھوکے میں رکھا کیونکہ اگر
میرا نَفْس فَناء ہو چکا ہوتا توآج ایک حقِّ شَرعی پُورا کرنا(یعنی ماں کی اِطاعت کرنا) اُسے(یعنی نفس
کو)بے حد دُشوار کیوں محسوس ہوتا !