Book Name:Aashiqon ka Hajj
مُناسِب بھی یہی ہے کہ بندہ جب وہاں جائے تو شاہانہ اور مُتَکبِّرانہ اَنداز نہ ہوبلکہ اِنْتہائی عاجزی واِنکساری کے ساتھ حاضری کی سَعادَت پائے۔حدیثِ پاک میں بھی اس کی ترغیب ملتی ہے۔چُنانچہ بارگاہِ رسالت میں کسی نےعرض کی:یارَسُولَاللہ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) حاجی کو کیسا ہونا چاہیے؟ ارشاد فرمایا: پَراگندہ سَر ، میلا کُچیلا۔ (شرح السنہ للبغوی ،کتاب الحج ،باب وجوب الحج …الخ ،ج۴،ص:۹،حدیث: ۱۸۴۰)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! حرمینِ طیّبین کے سفرِسَعادَت کی تَمنّا ہر ایک عاشق کے دل میں ہوتی ہے اورہونی بھی چاہیے۔بعض خُوش نصیبوں کی مُرادیں برآتی ہیں اور وہ بیتُ اللہ شریف کی زِیارت اور مَناسکِ حَجّ کی اَدائیگی کے بعد روضہ ٔ رسول کے پُرکَیْف جَلووں سے مُسْتَفِیْض ہوتے ہیں۔اوربعض عاشقانِ رسول ہر وَقْت یادِ مدینہ میں بے چین رہتے ہیں ،بس ان کے دل میں ایک یہی آرزُو ہوتی ہے کہ!
اِذْن مل جائے گر مدینے کا کام بن جائے گا کمینے کا
جا کے ان کو دِکھاؤں گا میں تو زَخْمِ دل اور داغ سینے کا
قَلبِ عاشق اُٹھا دَھڑک اِک دَم ذِکْر جب چِھڑ گیا مدینے کا
آنکھ سے اَشک ہوگئے جاری جب چلا قافلہ مدینے کا
اس کی قسمت پہ رَشک آتا ہے جو مُسافر ہوا مدینے کا
ہم کو بھی وہ بُلائیں گے اِک دن اِذْن مل جائے گا مدینے کا
(وسائلِ بخشش، ص۱۸۱)
اور جو خُوش نصیب حج وعُمرہ کی سَعادت پاکر مدینہ شریف گُھوم آتے ہیں اور نظروں سے سُنہری جالیوں کو چُوم لیتے ہیں ان کی آتشِ شوق بجھتی نہیں بلکہ مزیدبھڑک اُٹھتی ہےاوروہ ہر وَقْت فِراقِ مدینہ(یعنی مدینے کی جُدائی میں) میں بے قَرار رہتے ہوئے گویا زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں،