Book Name:Aashiqon ka Hajj
مدینے ہمیں لے گیا تھا مُقدَّر مدینے میں کیسا سُرور آ رہا تھا
نہ ہم کاش آتے یہاں لوٹ کر گھر مدینے میں کیسا سُرور آ رہا تھا
وہاں بارشِ نُور ہوتی تھی پیہم نہ دُنیا کی جھنجھٹ زَمانے کا تھا غَم
مِلا تھا ہمیں قُربِ محبوبِ داوَر مدینے میں کیسا سُرور آ رہا تھا
کبھی بیٹھتے ان کی مسجد میں جا کر کبھی دُور سے تکتے محراب و منبر
نمازوں کا بھی لُطف تھا کیا وہاں پر مدینے میں کیسا سُرور آ رہا تھا
یقیناً مدینہ ہے صَد رشکِ جنَّت مدینے میں ہے میٹھے آقا کی تُربت
اے عطارؔ! کیوں چھوڑ کر آئے وہ دَر مدینے میں کیسا سُرور آ رہا تھا
(وسائلِ بخشش، ص۱۶۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کعبۂ مُعظَّمہ اور گنبدِ خَضْرا کی زِیارت
کےلیے جانا، حَج ہو یا عُمرہ ، کسی بھی نِیَّت سے سُوئے حَرَم قدم بڑھانا ، یقیناً
بہت بڑی سَعادت اور بڑے نصیب کی بات ہے۔اور ایسا شخص جو اس اِرادے سے گھر سے نکلے
وہ فائدے ہی فائدے میں ہے۔کیونکہ یہ ایک ایسا سفرہے کہ قَدَم قَدَم پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمتوں اوراس کی برکتوں کی چھما چھم برسات نصیب ہوتی ہے۔اور
جب زائر حرمین ِ طَیِّبَیۡن میں پہنچ جائے اب تو اس کے وارے ہی نیارے ہوجاتے ہیں، اس
کے نصیب کا ستارہ بامِ عُروج(بلندی)پر ہوتا
ہے۔اگراسی دوران وہیں پر دَم نکل جائے اور جنَّتُ الْبَقِیْع میں دو گَز جگہ مل جائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا اِنعام ہو سکتا ہے۔ اس
کے ساتھ ساتھ اس کے نامۂ اعمال میں قیامت تک اپنے نیک عمل کی نِیَّت کے مُطابِق
ثواب بھی لکھا جاتا رہے گااور اگر واپس آنا ہی پڑ جائے تو مدینے میں دوبارہ جانے
کا جاں فزا تصور بھی عاشقانِ رسول کے ذوق کی تسکیں کا سامان ہوجاتا ہے۔ الغرض! اس
مبارک سفر کے بڑے فوائد ہیں۔آئیے!اس حوالے سے
چند فرامینِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سُنتے
ہیں: