Book Name:Auliya Allah Ki Shan
نے فرمایا کہ بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا تلاش کرتا رہتا ہے،اسی جستجو میں رہتا ہے حتی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ حضرت جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام سے فرماتا ہے کہ فلاں میرا بندہ مجھے راضی کرنا چاہتا ہے مطلع رہو کہ اس پر میری رحمت ہے تب حضرت جبرائیل کہتے ہیں فلاں پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت ہے،یہی بات عرش اُٹھانے والے فرشتے کہتے ہیں،یہی ان کے اردگرد کے فرشتے کہتے ہیں حتی کہ ساتویں آسمان والے بھی یہ کہنے لگتے ہیں پھر یہ رحمت اس کے لیے زمین پر نازل ہوتی ہے۔([1])
مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ حدیثِ پاک کے اس حصے ”مطلع رہو کہ اس پر میری رحمت ہے“کے تحت فرماتے ہیں:یعنی اس پر میری کامل رحمت ہے اس طرح کہ میں اس سے راضی ہوگیا۔خیال رہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا تمام نعمتوں سے اعلیٰ نعمت ہے، جب رَبّ تعالیٰ بندے سے راضی ہوگیا تو کونین (یعنی دوجہاں) بندے کے ہوگئے،رَبّ تعالیٰ فرماتا ہے: (رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ) ([2]) (یعنی اللہ اُن سے راضی اور وہ اللہ سے راضی)پھر بندے پر وہ وقت آتا ہے کہ رَبّ تعالیٰ بندے کو راضی کرتا ہے(جیساکہ) حضرت سَیِّدُنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے مُتَعَلِّق فرماتاہے: (وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠(۲۱))([3])اللہ تعالیٰ صدّیق کو اتنا دے گا کہ وہ راضی ہوجائیں گے۔غرضکہ آسمانوں میں اس (رضائے الٰہی طلب کرنے والے بندۂ مومن )کے نام کی دھوم مچ جاتی،شور مچ جاتا ہے کہ” رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ “(مزید فرماتے ہیں کہ )یہ دعائیہ کلمہ ہے،یعنی اللہ تعالیٰ اس پر رحمت کرے،یہ دُعا یا تو فرشتوں کی محبت کی وجہ سے ہوتی ہے یا خود وہ فرشتے اپنے قربِ الٰہی بڑھانے کیلیے یہ دُعائیں دیتے ہیں، (پھر یہ رحمت اُس بندۂ مومن کیلئے زمین پر نازل ہوتی ہے)اس طرح کہ قدرتی طور پر انسانوں کے منہ سے اس کے لیے ”رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اور رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ“جیسے دُعائیہ کلمات نکلنے لگتے