Safar-e-Meraj Or Ilm-e-Ghaib-e-Mustafa صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

Book Name:Safar-e-Meraj Or Ilm-e-Ghaib-e-Mustafa صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

المقدس تشریف لے جانے کی سچائی کا قافلوں کی واپسی سے کوئی تعلق نہ تھا یعنی اگر پیارے آقا ،شبِ اسری کے دولہا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ قافلوں کی واپسی کا وقت نہ بتاتے تو اس کی وجہ سے بیتُ المقدس تشریف لے جانے پر اعتراض (Objection) نہیں کیا جاسکتا تھا مگر قربان جائیے! غیب بتانے والے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کہ جس بات کا کفّار کے شکوک و شُبہات (Doubts) سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ بھی بیان فرمادی، جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب پر بہت بڑی دلیل ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں کیونکہ نبی کا منصب ہی غیب کی خبریں بتانا ہے۔جیساکہ

حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمدامجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  بہارِ شریعت میں  فرماتے ہیں:انبیا عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   غیب کی خبر دینے کے لیے ہی آتے ہیں کہ جنّت و نار و حشر و نشر و عذاب و ثواب غیب نہیں تو اور کیا ہیں...؟ اُن کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ باتیں ارشاد فرمائیں جن تک عقل و حواس کی رسائی نہیں اور اسی کا نام غیب ہے۔([1])

شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالے ”سیاہ فام غلام“کے صفحہ نمبر 17 پر ارشاد فرماتے ہیں: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے مَحبوب ، دانائے غُیُوب  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے پروردگار عَزَّ  وَجَلَّ کی عطا سے اپنے غلاموں کی عُمر وں سے بھی باخبر ہیں اوران کے ساتھ جو کچھ پیش ہونے والا ہے اسے بھی جانتے ہیں ۔ قرآنِ پاک کی بہت سی آیاتِ مبارَکہ سے سرکارِمدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کا ثُبوت ملتاہے ۔

چُنانچِہ پارہ 30سورۂ تَکْوِیْر کی آیت نمبر24میں ارشادِخداوندی ہے:

وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ(۲۴) (پ۳۰،التکویر:۲۴)

 تَرْجَمَۂ کنز الایمان:اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں۔


 

 



[1]  بہار شریعت،حصہ اول،۱/۴۶