Safar-e-Meraj Or Ilm-e-Ghaib-e-Mustafa صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

Book Name:Safar-e-Meraj Or Ilm-e-Ghaib-e-Mustafa صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

معنی یہ بھی بیان فرمایا ہےکہ  یہ سب حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے جسمانی معراج میں مُلاحظہ فرمایا تھا مگر یہ سوال کسی اور دِن فجر کی نماز کے بعد فرمایا۔مزید فرماتے ہیں: حضرتِ بِلال (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ) کا حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے آگے جنّت میں جانا ایسا ہے جیسے نوکر چاکر بادشاہوں کے آگے چلتے ہیں۔ خیال رہے کہ معراج کی رات نہ تو حضرتِ بِلال (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ)، حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ساتھ جنّت میں گئے،نہ آپ کو معراج ہوئی بلکہ حُضُورِ اکرم،نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس رات وہ واقعہ مُلاحظہ فرمایا، جو قیامت کے بعد ہو گا کہ ساری مخلوق میں سب سے پہلے حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ جنّت میں داخِل ہوں گے اس طرح کہ حضرتِ بِلال (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ) خادِمانہ حیثیت سے آگے آگے ہوں گے۔ اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے ٭ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کو لوگوں کے انجام پر خبردار کیا کہ کون جنّتی ہے اور کون دوزخی اور کون کس درجے کا جنّتی اور کس درجے کا دوزخی ہے ٭دوسرے یہ کہ حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے کان اور آنکھ لاکھوں برس بعد ہونے والے واقعات کو سُن لیتے اور  دیکھ لیتے ہیں، یہ واقعہ اس تاریخ سے کئی لاکھ سال بعد ہو گا مگر قربان ان کانوں کے آج ہی سُن رہے ہیں۔ ٭تیسرے یہ کہ انسان جس حال میں زندگی گزارے گا اسی حال میں وہاں ہو گا،حضرتِ بِلال (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ) نے اپنی زندگی حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں گزاری وہاں بھی خادِم ہو کر ہی اُٹھیں گے۔([1])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سُنا آپ نے کہ ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مُصْطَفٰے  ،شبِ اسریٰ کے دُولہا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے عظیمُ الشّان علمِ غیب کے ذریعے  قیامت کے دن حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قدموں سے پیدا ہونے والی آواز کولاکھوں سال پہلے ہی سُن لیا ،اس طرح اور بہت سے واقعات حضورِ اکرم،نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ علمِ غیب کو بیان کرتے ہیں،


 



[1]مرآۃ المناجیح، ۲/۳۰٠