Book Name:Ilm-e-Deen Ki Fazilat Wa Ahmiyat
قدر پسند آئیں کہ یہ دھوبی کو چھوڑ کر وہیں بیٹھنا شروع ہوگئے۔ والدہ کو جب پتا چلتا وہ انہیں اٹھاتیں اور دھوبی کے پاس لے جاتیں، جب معاملہ بڑھا تو ان کی والدہ نے حضرتِ امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سے کہا: اس بچےکی پرورش کرنےو الا کوئی نہیں، میں نےاسےدھوبی کے پاس بٹھایا تھا تاکہ کچھ کماکر لاسکے،مگر آپ نے اسے بگاڑ کررکھ دیا ہے۔حضرتِ امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: اے خوش بخت! اسے علم کی دولت حاصل کرنے دے وہ دن دور نہیں جب یہ باداموں اوردیسی گھی کا حلوہ اور عمدہ فالودہ کھائےگا۔ یہ بات سن کر امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی والدہ بہت ناراض ہوئیں، کہنے لگیں: (آپ ہم سے مذاق کرتےہیں بھلا)ہم جیسے غریب لوگ باداموں اوردیسی گھی کا حلوہ کیسے کھاسکتے ہیں؟امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ استقامت کے ساتھ علمِ دین حاصل کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب عہدۂ قضا ان کے سپرد کر دیا گیا۔ایک دفعہ خلیفہ نے ان کی دعوت کی، دورانِ دعوت خلیفہ نے باداموں اور دیسی گھی کا حلوہ اور عمدہ فالودہ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا :’’اے امام! یہ حلوہ کھائیے، روز روز ایسا حلوہ تیارکروانا ہمارے لئے آسان نہیں ۔‘‘یہ سن امام ابویوسفرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو امامِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی بات یادآئی تووہ مسکرانے لگے،خلیفہ کے استفسار پر فرمایا:میرے استاد محترم حضرتِ سیِّدُنا امام اَعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے برسوں پہلے میری والدہ سے فرمایا تھا کہ تمہارا یہ بیٹا باداموں اور دیسی گھی کا حلوہ اور فالودہ کھائے گا،آج میرے استادِمحترم کا فرمان پورا ہوگیا۔ پھر انہوں نے اپنے بچپن کا سارا واقعہ خلیفہ کو سنایا تو وہ بہت متعجب ہوئے اور کہا:بے شک علم ضرور فائدہ دیتا اور دین ودنیا میں بلندی دِلواتا ہے۔(عیون الحکایات،الحکایۃ الثانیۃ عشرۃ بعد الثلاثمائۃ ص۲۷۸، ملخصاً )
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حکایت میں ہمارے لئے بہت سے مدنی پھول موجود ہیں:یہ بھی معلوم ہوا کہ اولیاء کرام نگاہِ فراست سے آئندہ پیش آنے والے واقعات کو پہلے ہی ملاحظہ فرمالیا کرتے ہیں، استادِکامل کی خاص توجہ انسان کو کیا سے کیا بنادیتی ہے نیز یہ بھی پتا چلا کہ علمِ دین، دنیا و آخرت میں