Book Name:Ham Dartay Kiun Nahi?
ساری زندگی دین ِ متین کی خدمت فرمائی اور161 ہجری میں عراق کے شہربصرہ میں وفات پائی۔آپ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ کی کمر جوانی ہی میں جھک گئی تھی لوگوں نے کئی مرتبہ اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیا،آپ کا ایک شاگرد (Student)کافی عرصہ تک کسی موقع کی تلاش میں رہا کہ وہ آپ سے اس کا سبب دریافت کر سکے ،آخر ایک دن اس نے موقع پاکر آپ سے اس بارے میں پوچھ ہی لیا، آپ نے پہلےتو کوئی جواب نہ دیالیکن پھر اس کے مسلسل اصرار پر فرمایا ،میرے ایک استا د جن کا شمار بڑے علماء میں ہوتا تھا اور میں نے ان سے کئی علوم وفنون سیکھے تھے، جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو مجھ سے فرمانے لگے ، اے سفیان! کیا تُو جانتا ہے کہ میرے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ؟ میں 50 سال تک مخلوقِ خدا کو ربِ کریم کی اطاعت کرنےاورگناہوں سے بچنے کی تلقین کرتا رہا ، لیکن افسوس! آج جب میری زندگی کا چراغ گل ہونے کو ہے اگراللہ کریم نے مجھے اپنی بارگاہ سے یہ فرماکر نکال دیا کہ تُو میری بارگاہ میں آنے کی اہلیت نہیں رکھتا اپنے اُستادکی یہ بات سُن کر خوف سے میری کمر ٹُوٹ گئی، جس کے ٹُوٹنے کی آواز وہاں موجود لوگوں نے بھی سُنی اورمیں اپنے رَبِّ کریم کے خوف سے آنسو بہاتا رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ میرے پیشاب میں بھی خون آنے لگا اور میں بیمار ہوگیا جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو میں ایک غیر مسلم حکیم کے پاس گیا ، پہلے تو اسے میری بیماری کا پتہ نہ چل سکا پھر اس نے غور سے میرے چہرے کا جائز ہ لیا اور میری نبض دیکھی اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا ، میرا خیال ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں اس جیسا نوجوان کہیں نہ ہوگا کہ اس کا جگر خوفِ الٰہی کی وجہ سے پھٹ چکا ہے۔(حکایات الصالحین،ص ۴۵)
گناہوں نے میری کمر توڑ ڈالی
تیرے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ
گناہوں کے امراض سے نِیم جاں ہوں
مِرا حشْر میں ہو گا کیا یا اِلٰہی
میں تھر تھر رہوں کانپتا یا اِلٰہی
پئے مُرشِدی دے شِفا یا اِلٰہی
(وسائلِ بخشش مُرمّم،105)