Book Name:Ham Dartay Kiun Nahi?
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ حکایت سےمعلوم ہوا کہ اللہ پاک کے نیک بندوں کےدل ہر وقت خوفِ خدا سےمعمور ہوتے ہیں ،ان کا اُٹھنا ،بیٹھنا چلنا پھرنا الغرض زندگی کے شب و روز فکرِ آخرت میں گزرتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ان کے دل مَحَبَتِ الٰہی سے ایسے معمور ہوتے ہیں کہ وہ صرف رَبِّ کریم کی رِضا چاہتے ہیں اوران کے دلوں میں اللہ پاک کا ایسا خوف ہوتاہے کہ قِیامت کا ہوشرُبا و ہولناک منظر ہر وقت پیشِ نظر رہتاہے، لیکن افسوس !آج گناہوں کی نحوست کی وجہ سے شایدخوفِ خدا ہمارے دِلوں سے رُخصت ہو چکا،گویا کہ ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہم نہ سدھرے ہیں نہ سدھریں گے قسم کھائی ہے۔ ہمیں ڈرانے کیلئے عذاب پر مشتمل کتنی ہی آیات سنادی جائیں،گناہوں کی وعیدوں پر کتنی ہی حدیثیں بیان کردی جائیں ، گناہگاروں کے عبرت ناک انجام کی حکایات سنادی جائیں لیکن ہم عِبرت حاصل نہیں کرتے،اِدھراُدھردیکھ کر لاپرواہی سے سنتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ گناہوں کےسبب ہمارے دل اس قدر زَنگ آلود ہوچکے ہیں کہ ہم پر نصیحت (Advice) کی کوئی بات اثر انداز نہیں ہوتی ۔یادرکھئے ! اگر ہم بے خوف ہوکر اپنی زندگی یُونہی گناہوں میں بسر کرتے رہے تو ایسا نہ ہوکہ بروزِ قیامت ہماراحشر بھی ایسےمجرموں کےساتھ ہوجنہوں نے اپنی زندگی ربِّ کریم اوراس کے پیا رےرسولِ عظیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نافرمانی اورنیک اعمال سے دُور رہ کرگزاری ہوگی،ایسے لوگ بروزِ قیامت اللہ پاک کی رحمت سےمحروم ہوں گے ، گناہوں کی وجہ سے ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے، یہ لوگ قیامت کے دن اِدھراُدھربھاگتے پھریں گےمگر کوئی ان کا حامی ومددگار نہ ہوگا،چنانچہ اس کیفیت کو پارہ30سُوْرَہ ٔ عبس آیت نمبر33 تا 37 میں یوں بیان کیا گیا ہے :