Book Name:Fikr-e-Akhirat
کے خَوف سے بھی لَرزا طاری ہوا یا کبھی اس اِمتحان کی تیاری کا ذِہن بنا ؟ یادرکھئے!یہ دنیا اور اس کی تمام نعمتیں عارضی ہیں۔ لہٰذا دُنیا کی ان عارضی سہولیات اورنِعمتوں سے لُطْف اُٹھانے کےساتھ ساتھ یہ بات بھی ذِہْن میں بٹھالینی چاہیے کہ آخرت میں ان سب نعمتوں کا حساب بھی دینا ہوگا۔ صرف کھانے پینے یا استعمال کی ضَروری چیزوں کے بارے میں ہی پوچھ گچھ نہیں ہوگی بلکہ اعمال کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا اور ہمیں ہر ہر عمل کاحساب دینا ہوگا۔لہٰذا کوئی بھی کام کرنے سے پہلے لَمْحَہ بھر کےلیے یہ ضَرورسوچنا چاہیے کہ میں جس کام کو کرنے کا اِرادہ رکھتا ہوں اس میں میری آخرت کا فائدہ بھی ہے یا نہیں کیونکہ فُضُول ا ور بے کار کام کرنے پر آخرت میں میری پکڑ ہوسکتی ہے۔
یادرہے! قیامت کے دن جسم کے اَعْضاء کے بارے میں بھی سُوال ہوگا جن سے لوگ بِلاجھجک دن رات ڈھیروں گُناہ کرتےہیں ۔جیسے آنکھ کہ لوگ اس سے اللہ پاک کی نافرمانی والے بہت سے کام کرتے ہیں۔بَدنگاہی کرتے ہیں،فلمیں ڈرامے دیکھتے ہیں،بے حیائی والے مَناظر سے لُطْف اُٹھاتے ہیں وغیرہ۔اسی طرح کئی لوگوں کے کان بھی حَرام سننے میں مَصْروف رہتے ہیں،یوں کہ وہ لوگ رات گانے باجے،فُضُول اوربے حیائی والے لطیفے،غِیبت وچُغْلی اور کسی کے عُیُوب کو سُننے جیسے گُناہ کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگوں کا دل بُرے خَیالات ،بُغْض وکینہ،حَسد وغیرہ جیسی باطِنی بیماریوں کا عادی ہوتاہے۔لہٰذاسمجھدار وہی ہے جوآخِرت کے حِساب وکتا ب سے ڈَرتے ہوئے اپنے اَعْضاء کو گُناہوں سے بچانے میں کامیاب ہوجائے ورنہ قِیامت کے دن جب ان اَعْضا کے بارے میں پوچھا جائے گا تو ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا۔اللہ کریم قرآنِ پاک میں پارہ15سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 36 میں ارشاد فرماتا ہے: