Book Name:Kamsin Auliya-e-Kiraam
قاضی سلیمان کے ہاں ایک لڑکے کی ولادت ہو گی جو قطبِ وقت ہوگا۔ اگر وہ بچہ کل دودھ نہ پئے تو تم روزہ رکھ لینا ورنہ نہیں۔ چنانچہ اسی رات قاضی سلیمان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے ہاں نیک بخت لڑکے کی ولادت ہوئی اور اس نے اگلے روز دودھ نہ پیا اور روزہ رکھا ۔ اسے دیکھ کر لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا ۔یہ بچہ کوئی اور نہیں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنجِ شکر رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ تھے ۔([1])
پىاری پىاری اسلامى بہنو! غور کیجئے! ہمارے بزرگانِ دین کا بچپن ہی ایسا تھا کہ چاند نظر نہ آتا تو ان کے معمولات دیکھ کر روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ان بزرگوں کی نیک سیرت کو اپنائیں، ہمیں چاہیے کہ ہم بھی خود میں نماز روزے کی الفت پیدا کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اپنی ساری زندگی فرائض و واجبات کی پابندی کریں، ہمیں چاہیےکہ ہم بھی خود میں عبادت کا ذوق و شوق پیدا کریں۔ ہمیں چاہیے کہ عشق و مستی میں ڈوب کر عبادت کرنے والے بنیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی عبادتوں میں خشوع و خضوع پیدا کریں۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بزرگانِ دین کے نقشِ قدم پر چلیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بھی علمِ دین سیکھنے والے بنیں۔ ہمارے بزرگانِ دین بھی علم کے شیدائی تھے۔جیسا کہ منقول ہے،
دورانِ طالب علمی حضرت بابافریدگنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہمسجد میں تشریف لے جاتے اور قبلہ رُخ بیٹھ کر اپنے اَسباق یاد کیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ سُلطانُ المشائخ حضرت قُطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ملتان میں جلوہ گَر ہوئے اور اسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لائے۔ حضرت بابا فرید گنج شکر رَحْمَۃُ