Book Name:Kamsin Auliya-e-Kiraam
حضرت زَکَرِیَّا عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا
حضرت زَکَرِیَّا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جب بچی کی یہ کرامت دیکھی کہ ان کے پاس بے موسم جنَّتی پھل آتے ہیں اور ان کا وہ جواب سنا تو آپ کے دل میں فرزند کا شوق پیدا ہوا([1])اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور آپ کی زوجہ محترمہ دونوں عمر رسیدہ ہو چکے تھے اور اس عمر میں عام طور پر اولاد نہیں ہوا کرتی، لیکن آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے یقین کرلیا کہ جو ربّ اس بچی کو بےموسم میوے دینے پر قادِر ہے اور جو خدمتِ بَیْتُ المقدس کے لیے بجائے لڑکے کے لڑکی اوربجائے جَوَانْ کے بچی کو قبول فرما لیتا ہے اور جو اس بچی کو بچپن میں بولنے کی طاقت دیتا ہے اور جو بغیر گمان رِزْق دینے پر قادِر ہے وہ مجھ جیسی عمر والے کو میری بانجھ(یعنی بچے سے ناامید) بیوی سے اولاد بخشنے پر بھی قادِر ہے، چنانچہ اسی وَقْت اور اسی جگہ جہاں اس بچی سے یہ گفتگو ہوئی تھی، انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں دُعا کی۔ عرض کیا کہ اے مولیٰ! مجھے اس بڑھاپے میں خاص اپنی طرف سے ایک پاک وستھرا بیٹا عطا فرما، تُو دعاؤں کو قبول فرمانے والا ہے۔ جب تُو نے حَنَّہ کی دعا قبول کی تو میری دعا کو بھی ضرور قبول فرمائے گا۔([2]) قرآنِ کریم میں ان کے اس جگہ دعا کرنے کا ذِکْر موجود ہے، چنانچہ پارہ تین، سورۂ آلِ عمران ، آیت نمبر 38 میں ارشاد ہوتا ہے:
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) (پ۳، آلِ عمران:۳۸)
ترجمۂ کنزالایمان: یہاں پکارا زَکَرِیَّا اپنے ربّ کو بولا اے ربّ میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد، بے شک تو ہی ہے دعا سننے والا۔