Book Name:Seerate Imam Ahmad Bin Hamnbal
ساتھ سننا نصیب ہوجائے ۔آئیے! آپ کی سیرت کا بڑا ہی دلچسپ واقعہ سنتی ہیں،چنانچہ
حضرت امام احمد بن حَنْبَل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے پوتے حضرت زُہَیْربن صالح رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں نے ا پنے والد(حضرت صالح رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ)کو یہ فرماتے ہوئے سنا:ایک مرتبہ جب میں گھر آیا تو معلوم ہوا! میرے والدِ محترم حضرت امام احمد بن حَنْبَل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ بڑی شدّت سے میرا انتظار کر رہے تھے،میں فوراً حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کی:اے میرے والد ِ محترم! کیا آپ میرا انتظار کر رہے ہیں؟ فرمایا: ہاں! تمہاری غیر موجودگی میں ایک شخص مجھ سے ملنے آیا تھا، میری خواہش تھی کہ تم بھی اسے دیکھ لیتے لیکن اب تو وہ جا چکا ہے۔ چلو! میں تمہیں اس کے متعلق کچھ بتا دیتا ہوں۔آج دو پہر کے وقت میں گھر میں تھا کہ دروازے پر کسی کے سلام کرنے کی آواز سنائی دی، میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک مسافر تھا جس نے جوڑلگا ہوا جُبَّہ پہنا ہو اتھا۔جُبّے کے نیچے قمیص پہنی ہو ئی تھی،نہ تواس کے پاس سفر کاسامان رکھنے کا تھیلا تھا، نہ ہی پانی پینے کے لئے کوئی برتن۔سورج کی تیز دھوپ نے اس کا چہرہ جھُلسا دیا تھا۔ میں نے(سلام کا جواب دے کر)فوراً اسے اندر بلایا اور پوچھا:تم کہا ں سے اورکس حاجت کے تحت آئے ہو۔کہنے لگا:حضور! میں مشرقی وادیوں سے آیا ہوں،میری دِلی خواہش تھی کہ اس علاقے میں حاضری دوں، اگر یہاں آپ کا مکان نہ ہوتا تو ہرگز یہاں نہ آتا۔ میں صرف آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہوا ہوں ۔میں نے کہا :تم اتنی شدید گرمی میں اکیلےغربت کے عالَم میں سفر کی تکلیفیں برداشت کرکے صرف مجھ سے ملاقات کے لئے آئے ہو؟کہا:جی حضور! مجھے آپ کی زیارت کا شوق یہاں تک لے آیا ہے ، اس کے علاوہ میرا یہاں آنے کا کوئی اور مقصد نہیں ۔مسافر کی باتیں سن کر میں بہت حیران ہوا اور دل میں کہا: میرے پاس نہ تو درہم ہیں نہ ہی دینار کہ میں اس غریب مسافر کی مدد کرتا۔ اس وقت میرے پاس صرف چار(4)روٹیاں تھیں میں نے اسے دیتے ہوئے کہا :اے بندۂ خدا! میرے پاس درہم و دینار(یعنی دنیاوی مال و دولت)نہیں ورنہ ضرور تمہیں دیتا،صرف یہ چار(4)روٹیاں میں نے کھانے کے لئے رکھی تھیں،تم یہ قبول کرلو۔مسافر نے کہا :حضور! آپ کے دِیدار کا شربت پی لیا اب مجھے درہم و دینار(دنیاوی مال و دولت) کی فکر نہیں ، باقی رہاروٹیوں کا معاملہ تو اگر میرا ان روٹیوں کو لے لینا آپ کی خوشی کا باعث ہے تو بَرَکت حاصل کرنے کی نِیَّت سےلے لیتا ہوں۔
میں نے کہا: اگر تم یہ روٹیاں قبول کر لو گے تو مجھے دلی خوشی ہوگی۔مسافر نے وہ روٹیاں لیں اور کہا : حضور! مجھے اُمید ہے کہ آپ کی دی ہوئی روٹیاں مجھے اپنے شہر تک کافی ہیں۔اللہ کریم آپ کی حفاظت فرمائے۔پھر وہ میرے ہاتھوں کو چوم کر واپسی کی اجازت طلب کرنے لگا۔میں نے اسے روانہ کیا اور کہا:جاؤ! میں نے تمہیں اللہ کریم کے حوالے کیا ۔ پھر وہ رُخصت ہوگیا ،میں باہر کھڑا اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ میری نظروں سے غائب ہوگیا ۔حضرت صالح رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میرے والد اکثر اس مسافر کاذکر فرمایا کرتے تھے۔(عیون الحکایات،ص۳۱۴)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
حضرت امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے اوصاف