Book Name:Sadqa ke Fawaid
پیاری پیاری اسلامی بہنو!ہم صدقہ و خیرات کرنے سے متعلق سُن رہی تھیں ۔ یقیناً اِخْلاص کے ساتھ راہِ خدا میں کیا جانے والا مال ضائع نہیں جاتا۔ راہِ خدا میں خرچ کرتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ جو چیز آپ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہو ، اسے صدقہ وخیرات کیجئے کہ اس کاثواب زیادہ ہے۔
بدقسمتی سے صدقہ وخیرات کرنےمیں کنجوسی کامظاہرہ کیا جاتاہے ، یا پھر ایسی چیز صدقہ کی جاتی ہے جوقابلِ استعمال نہیں رہتی۔ مثلاً جب دیکھا کہ روٹیوں کو پھپھوندی لگ چکی ہے ، سالن ناراض(یعنی خراب) ہوچکا ہے ، یا ناراض(یعنی خراب) ہونے کے قریب ہے تو کسی غریب کو بھجوا دیتے ہیں۔ قُربانی کا گوشت جب اپنے اِستعمال کانہ رہے تو باندھ کرگھرمیں کام کرنےوالی ماسی کو دے دیتے ہیں۔ سیلاب سے متاثر یاآفت میں مُبْتَلا لوگوں کو کم قیمت کا راشن دلوا دیتے ہیں ، وہ کپڑےجو گھرمیں کوئی نہ پہنے ، یا وہ جُوتے جو پہننے کے قابل نہیں ہوتے ، غریبوںکی اِمداد اور صدقہ کےطورپربھیج دئیے جاتےہیں ، اگرچہ اچھی نِیَّت کے ساتھ اس طرح صدقہ کرنا بھی درست ہے ، لیکن ذرا سوچئے! کیسی عجیب باتہےکہ جب اپنے کھانے پینے یا اِستِعمال کی بات آئے تو عُمدَہ سےعُمدَہ چیز کااِنتِخاب(Selection)کیا جائےاورجب بات راہِ خُدا میں دینےکی آئےتو بچی کھچی یا کم قیمت والی چیزیں صدقہ وخیرات کی جائیں ۔ اپنے بچوں کیلئے تو اَعلیٰ سے اَعلیٰ کوالٹی کی چیزیں خریدی جائیں ، لیکن جب کسی غریب کے بچے کودینا ہوتو گھٹیا کوالٹی کی چیز وہ بھی اِحسان جتاکر دی جائے ۔ ہم اپنے گھر میں تو من پسند کھانے بڑے اہتمام کے ساتھ کھائیں لیکن اسی دوران کوئی مانگنے والا آجائے تو اسے بھگادیں یا گھر میں بچا ہوا باسی سالن جسے کوئی نہ کھائے اسے تھماکر اس خوش فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ چلو کھانا ضائع ہونے سے بچ گیا اور کسی غریب کا بھلا ہوگیا۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ اللہ پاک نے جنہیں طاقت دی ہے وہ اچھی سے اچھی چیز اللہ پاک کی راہ میں صدقہ کرنے کی کوشش کیا کریں۔ آئیے! اب اللہ والوں کے بھی کچھ انداز سنتی ہیں کہ اللہ پاک کے یہ نیک بندے اُس کی راہ میں خرچ کے سلسلے میں کیسے مخلص ہواکرتے تھے ، چنانچہ
حضرت نافع رَضِیَ اللہ عَنْہ سے روايت ہے : ایک مرتبہ حضرت عبدُاللہبن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا کو بیماری کی حالت میں انگور(Grapes) کھانے کی خواہش ہوئی تومیں ان کے لئے ایک درہم میں انگوروں کا ایک خوشہ خرید لایا۔ میں نے وہ انگوران کے ہاتھ میں رکھے ہی تھے کہ ایک مانگنے والے نے دروازے پر کھڑے ہوکرمانگا۔ حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہ عَنْہ نے وہ انگور مانگنے والے کو دینے کا کہا تو میں نے عرض کی : اس میں سے کچھ تو کھالیجئے ، تھوڑے سے تو چکھ لیجئے۔ فرمایا : نہیں ، یہ اسے دے دو۔ تو میں نے وہ مانگنے والےکو دے دیئے ۔
پھر میں نے مانگنے والے سے وہ انگور ایک درہم کے بدلے خریدلئے اور حضرت عبدُاللہ رَضِیَ اللہ عَنْہ کی خدمت میں لے آیا۔ ابھی ہاتھ میں رکھے ہی تھے کہ وہ مانگنے والا پھر آ گیا۔ آپ نے فرمایا : یہ اسے دے دو۔ میں نے عرض کی : آپ اس میں سے