سلسلہ: بزرگ خواتین کے سبق آموز واقعات
موضوع: باڈی شیمنگ
*محترمہ اُمِّ سلمہ عطاریہ مدنیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: میں نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے عرض کی:صفیہ کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ایسی اور ایسی ہیں یعنی پستہ قد ہیں۔تو حضور نے ارشاد فرمایا:تم نے ایسا کلمہ کہا ہےکہ اگر سمندر میں ملایا جائے تو اس پر غالب آ جائے۔(1)
معلوم ہوا!کسی کی ظاہری شکل و صورت اور جسمانی خدوخال میں پائے جانے والے عیوب بیان کرنا یعنی باڈی شیمنگ اسلام میں منع ہے،مگر افسوس! آج یہ بیماری ہمارے معاشرے میں عام ہوتی جا رہی ہے۔خود خامیوں کا مجموعہ ہونے کے باوجود لوگوں کی ایک تعداد دوسروں کی ظاہری شکل و جسامت کا مذاق اڑاتی نظر آتی ہے۔کسی کا قد لمبا ہو تو اسے کھمبا اور ٹاور جبکہ چھوٹے قد والے کو بونا وٹھگنا وغیرہ کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی جاتی۔اسی طرح اگر کوئی بھاری جسامت کی ہو تو اسے موٹی بھینس اور پتلی ہو تو سوکھی لکڑی وغیرہ جیسے لفظوں سے یاد کیا جاتا ہے۔
معاذ اللہ! بدن کے ایسے اعضا کو بھی ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے جن کے بارے میں گفتگو کرنا حیا کے سراسر خلاف ہے۔ سیاہی مائل بلکہ سانولی رنگت والی کو حبشن جبکہ چٹی سفید رنگت والی کو پھیکی ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے، چھوٹی آنکھوں، چپٹی ناک، موٹے ہونٹوں اور ٹیڑھے دانتوں والیوں پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔حالانکہ بعض اوقات عام سی شکل و صورت میں بھی ایسی کشش محسوس ہوتی ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ سفید چادر پر لگا ایک چھوٹا سا کالا داغ تو ہر کوئی فوراً دیکھ لیتا ہے مگر اتنی بڑی چادر کی خوبصورتی نظر نہیں آتی۔ شاید ایسوں کے متعلق ہی کسی نے کہا ہے:
عیبوں کو ڈھونڈتی ہے فقط عیب جو کی نظر
جو خوش نظر ہیں، ہنر و کمال دیکھتے ہیں
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک مرے ہوئے کتے کے پاس سے گزرے، حواریوں نے عرض کی:یہ کتا کس قدر بدبودار ہے! آپ نے فرمایا:اس کے دانت کتنے سفید ہیں۔(2)
عجیب بات یہ ہے کہ باڈی شیمنگ صرف کسی فیشن شو یا مقابلۂ حُسن میں شرکت کرنے والے افراد پر موقوف نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں کام کرنے والے لوگوں پر ہوتی ہے، حالانکہ اکثر اوقات اس فیلڈ میں شکل کی نہیں بلکہ ذہانت اور اچھے اخلاق کی حاجت ہوتی ہے۔اسی طرح بچوں کی ظاہری شکل و صورت اگر ددھیال پر ہو تو ننھیال میں ان پر نکتہ چینی کی جاتی ہے اور اگر معاملہ الٹ ہو تو ددھیال والے انگلی اٹھاتے ہیں۔نیز رشتہ کرتے وقت خاص طور پر شکل و صورت کو اہمیت دی جاتی ہے اور لحاظ و مُرَوَّت کو نظر انداز کر کے منفی تبصرے کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ رشتہ کرتے ہوئے لڑکے لڑکی کی شکل و صورت اور قد و قامت میں مناسبت کا لحاظ رکھنے میں حرج نہیں،لیکن اس وجہ سے کسی کا دل دکھانا یقیناً اچھا نہیں۔بلکہ بسا اوقات اچھے خاندان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے رشتے ٹھکرا کر ایسی اچھی صورت والوں سے تعلق جوڑ لیا جاتا ہے کہ جن کی بری سیرت کی وجہ سے ان کے ساتھ زندگی گزارنا دشوار ہو جاتا ہے۔نیز یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکی لڑکا دونوں خوبصورت ہوں، پھر بھی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی جدا ہو جاتے ہیں۔جبکہ ایسے جوڑے جن میں شکل و صورت کے لحاظ سے واضح فرق پایا جاتا ہے؛ وہ بڑی خوش اور مطمئن زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ظاہری حلیے پر ہونے والی بے جا تنقید سے بچنے کے لئے بہت سی لڑکیاں رنگ گورا کرنے کے لئے مصنوعی طریقے استعمال کر کے مختلف طرح کے جلدی امراض میں مبتلا ہو رہی ہیں اور وزن کم کرنے کے چکر میں صحت کا ستیاناس کر رہی ہیں ۔
واضح رہے کہ باڈی شیمنگ معاشرتی لحاظ سے ہی نقصان دہ نہیں، بلکہ یہ آخرت کے لئے بھی حد درجہ نقصان دہ ہے۔ جیسا کہ امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اگر کسی کے عیب کا تعلق اس کی فطرت سے ہے تو اس کی برائی بیان کرنا گویا (معاذَ اللہ)اللہ پاک کی طرف برائی کو منسوب کرنا ہے کیونکہ جو کسی بناوٹ و کاریگری میں عیب نکالتا ہے وہ گویا بنانے والے کی خرابی بیان کرتا ہے۔کسی نے ایک عقل مند سے کہا: او بد صورت!اس نے جواب دیا:چہرہ بنانا میرے اختیار میں نہیں ورنہ خوبصورت بنا لیتا۔(3) لہٰذا اگر آپ کی بھی شکل و صورت یا جسمانی بناوٹ پر منفی تبصرے کئے جائیں تو انہیں سر پر سوار کرنے کے بجائے نظر انداز کردیجئے اور ان کاموں پر فوکس رکھئے جو آپ کے اختیار میں ہیں۔یاد رکھئے!انسان کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو، مرنے کے بعد قبر میں پہنچ کر مٹی ہو جائے گا(4)اور صرف اچھے اعمال فائدہ دیں گے۔اللہ پاک ہمیں اپنے عیوب کی اصلاح کرنے اور دوسروں تک اچھے انداز سے نیکی کی دعوت پہنچانے کی سعادت نصیب فرمائے، نیز ہمیں لوگوں کے عیوب میں مشغول ہونے سے بچائے۔
آمین بجاہِ خاتمِ النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ملیر کراچی
1 ابوداود، 4/353، حدیث:4875
2 احیاء العلوم، 3 / 177
3 احیاء العلوم، 3/ 184
4 انبیا، اولیا، علما، شہدا اور حافظانِ قرآن کہ قرآنِ مجید پر عمل کرتے ہوں اور وہ جو منصبِ محبت پر فائز ہیں اور وہ جسم جس نے کبھی اللہ پاک کی معصیت (نافرمانی) نہ کی اور وہ کہ اپنے اوقات درود شریف میں مستغرق(مصروف)رکھتے ہیں، ان کے بدن کو مٹی نہیں کھا سکتی۔(بہارِ شریعت، 1/ 114، حصہ:1))
Comments