دین سے دوری کی وجوہات
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ:نیو لکھاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دین سے دوری کی وجوہات

*بنتِ محمد شبیر عطاریہ

آج مسلم معاشرے میں پائی جانے والی اکثر برائیاں مذہب سے دوری اور اسلامی تعلیمات  سے بے پروائی  کا نتیجہ ہیں۔دورِ حاضر میں ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ لوگ اسلامی تعلیمات سے غافل ہیں، جس کی وجہ سے ان کے ذہن میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ ہمارا مذہب موجودہ زمانے  کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ہم مذہبی پابندیوں  کی وجہ سے کبھی ترقی نہیں کر سکتے، لہٰذا اگر ہم دنیا والوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتے ہیں تو اسلامی احکام کی پابندیوں سے آزاد ہونا پڑے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مذہب ایک انقلاب  آفریں مذہب ہے اور اس کے اندر ہر دور اور ہر زمانے کے تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت  موجود ہے، کیونکہ یہ  مذہب اللہ پاک کا پسندیدہ اور ہمہ گیر مذہب  ہے۔اس کے دامن میں جہاں اپنے خالق و مالک کی عبادت کرنے کے اصول و ضابطے ہیں وہیں سیاسی و سماجی معاملات  و مسائل کو سلجھانے کی بہترین تعلیم و تربیت بھی موجود ہے۔الغرض دینِ اسلام زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا،انسان کی پیدائش سے لے کر قیامت قائم ہونے تک کے تمام معاملات کی وضاحت کرتا اور اپنے ماننے والوں کو جنت کی خوشخبری بھی سناتا ہے۔جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠(۸۲) (پ1،البقرۃ:82)

ترجمہ:اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جنت والے ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا۔

لہٰذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دین کی پابندیاں بہت زیادہ ہیں اور یہ مشکل ہے تو وہ اس حدیثِ مبارک کو بار بار پڑھیں کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے۔([1])

یاد رہے!دین سے دوری کی بہت سی وجوہات ہیں جن کو چند لائنوں میں ذکر نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ یہاں بطورِ مثال چند چیزوں کا ذکر پیشِ خدمت ہے:

دین سے دوری کی وجوہات

 جہالت:جہل کا ایک معنی اندھیرا یعنی لا علمی بھی ہے، ہم نے دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو کر اپنے آپ کو اس قدر مگن کر لیا ہے کہ دینی تعلیمات بالکل بے معنی سی لگتی ہیں۔اگر کوئی شرعی مسئلہ بتا دیا جائے تو بسا اوقات کوفت محسوس ہوتی ہے، یقیناً ایسا جہالت، علمِ دین نہ سیکھنے اور دین سے دوری کے باعث ہوتا ہے۔قرآن میں ہے:

هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ- (پ23،الزمر:9)

ترجمہ:کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟لہٰذا ہمیں علمِ دین حاصل کرنا اور اپنے دین کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے کہ یہ اللہ پاک کا پیارا دین ہے۔

والدین کی بے پروائی:اسلام نے والدین پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بہتر تربیت کریں اور مذہبِ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انہیں آراستہ کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ کامل مسلمان بن سکیں اور مسلم معاشرے کے لیے کار آمد ثابت ہوں۔افسوس!آج کے اس پرفتن دور میں ہر ایک پر پیسے کی دُھن سوار ہے، اولاد کو تعلیم تو دلوائی  جا رہی ہے لیکن تربیت کا بڑا فقدان ہے، نیز تعلیم بھی صرف اس لیے دلوائی جا رہی ہے کہ وہ کمائی کا ذریعہ ہے حالانکہ  رزق کا وعدہ اللہ پاک نے کیا ہے، وہ راضی ہو گا تو خود بخود انتظام ہو جائیں گے۔لہٰذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کے بجائے انہیں سنت پر عمل کی عادت ڈالیں تاکہ ان کے ذہنوں میں سنت کی عظمت راسخ ہو  جائے۔

 مسلم نوجوانوں پر ثقافتی یلغار:عصرِ حاضر میں جدید ٹیکنالوجی کا سہارا مل جانے کی وجہ سے ثقافتی یلغار پہلے سے زیادہ خطرناک ہو چکی ہے۔آج کل نوجوانوں کے دل و دماغ اور ان کے افکار و نظریات تک رسائی کے سینکڑوں وسائل و ذرائع موجود ہیں۔ چنانچہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا ہو یا دیگر ذرائع ابلاغ،ہر طرح مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کے ذہنوں اور فکروں میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔نوجوان الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں اور ساتھ میں اپنی دنیا و  آخرت بھی برباد کر رہے ہیں۔لہٰذا ضرورت اس چیز کی ہے کہ اپنے بچوں کو ان آلات سے بچانے کی بھرپور کوشش کی جائے،انٹر نیٹ کے منفی استعمال سے پیدا ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا جائے اور اس کے مثبت استعمال کے فوائد بتائے جائیں،نیز مسلمانوں کو سنت کی عظمت بتا کر انہیں سنتوں پر عمل کا جذبہ دیا جائے کہ اس سے بھی دین کی طرف رغبت بڑھتی ہے۔

 بد عملی:بہت سے لوگ سب کچھ جاننے کے باوجود انجان بنے بیٹھے ہیں اور اس کی ایک وجہ بد عملی بھی ہے۔جو قوم صرف خیالوں کی دنیا میں گم رہتی اور عمل سے منہ موڑتی ہے وہ تباہ ہو جاتی ہے۔لہٰذا چاہیے کہ علم پر عمل کرنے کی خوب کوشش کی جائے کہ علم بغیر عمل اور عمل بغیر علم کوئی فائدہ نہیں دیتا۔

بری صحبتیں:معاشرے کے حالات سے کون واقف نہیں!گھر کی چار دیواری کے باہر کی دنیا بس کھیل تماشا ہی ہے۔اکثر لوگوں کی بری عادتیں بُری صحبت کی وجہ سے ہیں کہ ہر پرندہ اپنے جیسے پرندے کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتا ہے۔اسی طرح انسان خود جیسا ہوگا ویسوں کے ساتھ ہی بیٹھے گا۔لہٰذا بُرے لوگوں کی صحبت سے دور رہا جائے کیونکہ صحبت اثر رکھتی ہے۔

یاد رکھئے!علم اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے، حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فضیلت علم کے سبب سے حاصل ہوئی اور ہر شخص پر اس کی حالت ِموجودہ کے مسئلے سیکھنا فرضِ عین ہے۔([2]) جیسا کہ ابنِ ماجہ شریف میں ہے:علم حاصل  کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔([3])

مذکورہ تمام وجوہات میں اگر مطلقاً دیکھا جائے تو سب میں لا علمی اور بے عملی پائی جائے گی یعنی علم نہ ہونا اور عمل نہ ہونا ۔ چنانچہ مسلمانوں کو دین کی طرف لانے کے لیے  خود بھی عمل کیا جائے کہ باعمل کی زبان زیادہ اثر رکھتی ہے اور علمِ دین سیکھا جائے کہ علمِ دین سیکھنے کے کئی ذرائع ہیں مثلاً فیضانِ سنت کا درس، عالمہ کورس، اسلامی کتابیں اور رسائل پڑھنا اور اچھوں کی صحبت اختیار کرنا کہ اچھوں کی صحبت بھی اچھا بناتی ہے۔

اللہ پاک کے احکامات کی پیروی کی جائے تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔علمِ دین حاصل کر کے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے دنیا اور آخرت میں سرداری کا شرف پاتے ہیں۔اللہ پاک ہمیں بھی علمِ دین حاصل کر کے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(درجہ:ثالثہ،جامعۃ المدینہ گرلز،جوہر آباد خوشاب)



[1] مسلم، ص 1210،حدیث:7417

[2] فتاویٰ رضویہ، 23/624

[3] ابن ماجہ، 1/146، حدیث:224


Share