سلسلہ:نئی لکھاری
اولاد بگڑنے کے اسباب
بنتِ مدثر عطاریہ
(درجۂ خامسہ،جامعۃ المدینہ گرلز، صدر راولپنڈی)
(اول پوزیشن)
موجودہ دور میں عام انسان کو زندگی کے مختلف مراحل میں طرح طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ایک طرف معاشی پریشانیاں تو دوسری طرف گھریلو مسائل جان کھا رہے ہیں۔
فکرِ معاش بد بَلا ہولِ معاد جاں گزا
لاکھوں بلا میں پھنسنے کو رُوح بدن میں آئی کیوں
انہی در پیش مشکلات میں بڑھتی ہوئی پریشانی اولاد کا بگڑنا بھی ہے۔اولاد بات نہیں مانتی، ہاتھ میں نہیں رہی وغیرہ وغیرہ آوازیں معاشرے کے ہر دوسرے فرد کی پکار ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ آخر اس کے پیچھے وجوہات کیا ہیں؟آئیے!ان میں سے چند کو جاننے کی کوشش کرتی ہیں:
والدین کا کردار
بچے کا ذہن سادہ تختی کی طرح ہوتا ہے اور اس پر نقش کرنے کے لئے قلم والدین کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔اولاد کو سنوارنے یا بگاڑنے میں والدین کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ابھی بچہ ہے؛ کہہ کر توجہ نہ دینا،اپنی نجی مصروفیات خصوصاً موبائل کو وقت دینا اور بچوں کو نظر انداز کر دینا، زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں اولاد کو ڈے کئیر یا آیا کے حوالے کر دینا وغیرہ تربیتِ اولاد سے لاپروائی برتنے کے انداز ہیں۔
یونہی اگر دین دار طبقے کی بات ہو تو معاشرے کو نیکی کی دعوت دینے کی کڑھن تو ہوتی ہے لیکن اپنی اولاد کو سمجھانے کی طرف ذہن نہیں جاتا۔(الا ما شاء اللہ)پھر جن کا تربیت کرنے کا ذہن ہو بھی تو بے جا سختی اور بلا وجہ کی ڈانٹ ڈپٹ بچے کو مزید ضدی اور والدین کا باغی بنا دیتی ہے۔
یاد رہے کہ کسی کی تربیت کے لئے خود بھی تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے اور والدین کے لئے فی زمانہ بہترین تربیت کا ذریعہ مدنی مذاکرہ ہے۔
دینی تعلیم سے دوری
بعض والدین کو اولاد کا دنیاوی مستقبل روشن کرنے کی تو فکر ہوتی ہے لیکن اخروی زندگی کی طرف دھیان نہیں ہوتا۔ دنیا سنوارنے کی خاطر والدین اپنی اولاد کو کافروں کے ہاتھوں تک میں دینے سے گریز نہیں کرتے۔حالانکہ قرآنِ کریم میں کافروں کو دوست تک بنانے سے منع فرمایا گیا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَؕ- (پ5،النسآء:144)
ترجمہ:اے ایمان والو!مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ۔
آج والدین کی اکثریت یہ تو چاہتی ہے کہ میرا بچہ انگریزی بولے لیکن اس کو قرآنِ کریم درست پڑھنا آتا بھی ہے یا نہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔لہٰذا اولاد کو اسلام کے بنیادی عقائد و اسلامی تعلیمات کا علم نہیں ہوتا اور یہ جہالت اسےنعوذ باللہ کفر کے گہرے گڑھے میں بھی جھونک سکتی ہے۔
سوشل میڈیا کا استعمال
ماڈرن ٹیکنالوجی کے جہاں بے شمار فائدے ہیں وہیں اس کے بے شمار نقصانات بھی ہیں۔خصوصاً موبائل فون کا اولاد کے بگڑنے میں بڑا کردار ہے۔والدین اسے بچے کو چپ کروانے کا کھلونا سمجھتے ہیں اور بچپن ہی سے اس کے ہاتھ میں موبائل اورگیجٹس تھما دیتے ہیں،لہٰذا بچہ ان کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے، پھر پڑھائی کے نام پر انٹرنیٹ کا استعمال مزید بڑھتا ہے۔اچھے برے کی تمیز نہ ہونے کے باعث بچے کسی بھی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو اپنا رول ماڈل بنا لیتے ہیں اور والدین کہتے سنائی دیتے ہیں کہ بچہ ہماری بات نہیں سنتا۔
اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے والدین سب سے پہلے اپنے سوشل میڈیا استعمال کو کنٹرول کریں اور پھر اولاد کو کوالٹی ٹائم بھی دیں۔
بری صحبت
گھر میں چاہے کتنا ہی بہترین ماحول ہو لیکن صحبت پھر بھی مُؤَثِّر ہوتی ہے۔
صحبتِ صالح ترا صالح کند صحبتِ طالح ترا طالح کند
(اچھے کی صحبت تجھے اچھا اور برے کی صحبت تجھے برا بنا دے گی)
پڑوس میں لگی آگ کا دھواں متاثر ضرور کرتا ہے۔ کوشش کی جائے کہ وقتاً فوقتاً اولاد کی صحبت کی جانچ پڑتال ہو اور انہیں نیک ماحول فراہم کیا جائے۔الحمد للہ! دعوتِ اسلامی اس دور میں امید کی کرن ہے، لہٰذا بچوں کو اس دینی ماحول کا عادی بنانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے تعلیمی اداروں(مدرسۃ المدینہ،جامعۃ المدینہ،دار المدینہ،فیضان اسلامک اسکول،فیضان آن لائن اکیڈمی) میں داخل کروائیے۔
بد دعا
والدین کو اپنی اولاد بہت عزیز ہوتی ہے لیکن بعض والدین خصوصاً ماؤں کی بات بات پر بد دعا دینے کی بری عادت ہوتی ہے۔بھاڑ میں جا،تیرا ستیا ناس ہو،یہ الفاظ عام ہیں اور پھر جب واقعی ایسا ہو جائے تو والدین ہی پریشان ہوتے ہیں۔حدیثِ پاک میں فرمایا گیا:اپنی جانوں،اپنی اولاد اور اپنے مالوں پر بددعا نہ کرو،ایسا نہ ہو کہ اتفاقًا وہ ایسی گھڑی ہو جس میں اللہ پاک سے جو مانگا جائے وہ ملے اور تمہاری یہ ہی دعا قبول ہو جائے۔([1]) اللہ پاک ہمیں اور ہماری اولاد کو سیدھے راستے پر استقامت عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
نیکیاں بھی کرے سنتوں پر چلے دیں پہ قائم سدا میری اولاد رکھ
Comments