بہو کو نوکرانی مت سمجھئے
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: نئی لکھاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اول پوزیشن: بہو کو نوکرانی مت سمجھئے

بنت عبدالوسیم بیگ

(درجہ:ثالثہ، جامعۃ المدینہ گرلزفیض مدینہ نارتھ کراچی)

فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں اور اپنی بچیوں کے ساتھ اچھا ہو۔([1])

آج کل دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سی خرابیوں کی طرح خاندانی نظام میں بگاڑ آ گیا  ہے۔ کسی کی اپنی بہن سے نہیں بن رہی تو کسی کی اپنے بھائی سے، کوئی کسی وجہ سے کسی سے نہیں مل رہی تو کوئی کسی وجہ سے تو کسی کے سسرالی معاملات میں بگاڑ ہے۔ ایک عورت جب  شادی کر کے دوسرے گھر جاتی ہے تو اس کا تعلق مختلف رشتوں سے ہوتا ہے،لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ ان رشتوں کو وہی عزت و محبت دے جو وہ اپنے گھر میں اپنے گھر والوں کو دیتی ہے اور اس کے سسرال والوں کو بھی چاہیے کہ اسے وہی  عزت، محبت اور پیار دیں جو وہ اپنی بیٹی کو دیتے ہیں اور اسے بھی اپنی بیٹی ہی سمجھیں،لیکن افسوس! معاملہ اس کے الٹ نظر آتا ہے۔ساس کے جو معاملات اور رویہ اپنی بہو کے ساتھ ہوتا ہے وہ نہایت ہی قابلِ مذمت ہوتا ہےاور وہ اپنی بیٹی اور بہو میں واضح فرق کرتی ہے۔

معاشرے میں موجود ایک بہت بڑی برائی ساس کا بہو کے ساتھ نا مناسب رویہ بھی ہے اور بہت سے واقعات ایسے ہیں کہ جن میں ساس کا بہو کے ساتھ نا مناسب رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ عموماً ساسیں محدود ذہنیت اور انا پرستی کا مظاہرہ کرتی ہیں  جن کے باعث بہوؤں سے ان کی تکرار ہوتی رہتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بسا بسایا  گھر اجڑ جاتا ہے۔

ساس کا بہو اور بیٹی میں فرق کرنا نا قابلِ مذمت ہے۔ اسی طرح بہو کا اپنی ماں کی عزت کرنا اور شوہر کی ماں کی عزت نہ کرنا بھی بہت بری بات ہے اور اسلام ایسی نا انصافی کی اجازت نہ ماں کو دیتا ہے نہ ہی بہو کو۔

ایسی ساسوں کو چاہیے کہ وہ بہو کو گھر کی نوکرانی مت سمجھیں۔ بیٹی کی بڑی سے بڑی غلطی نظرانداز کر نااور اگر بہو نے چھوٹی سی کوئی غلطی کر دی تو اسے اندھی اور نکمی ہونے کا طعنہ دینا، طنز کے تیر پھینکنا،اس کے خلاف اس کے شوہر کے کان بھرنااور اسے ہر وقت ذلیل و رسوا کرتے رہنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

بہو کے ہاں بچے کی ولادت پر ساس کہتی ہے:ہمارے بھی بچے ہوئے مگر ہم نے تو دو دن سے زیادہ آرام نہیں کیا لیکن آج کل کی لڑکیاں کام چور  ہو گئی ہیں۔ اس موقع پر ساس کو سوچنا چاہیے کہ جو سلوک میں اپنی بہو کے ساتھ اس کی اس حالت میں کر رہی ہوں اگر یہ سب میری بیٹی کے ساتھ ہو تو کیا میں برداشت کر لوں گی؟

اگر بہو ناراض ہو کر میکے چلی جائے تو اس کا قصور وار بہو کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اور اس بات کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی کہ واقعی بہو کا کوئی قصور ہے بھی یا نہیں! اس کی کوئی غلطی ہے بھی یا نہیں! اس موقع پر ساس یہ کیوں نہیں سوچتی کہ میرا بیٹا بھی اسی طرح بہو کا خیال رکھے جس طرح میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کا خیال رکھا جائے!

لمحہ فکریہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ در اصل ہماری زندگی میں لگنے والے زخم ہوتے ہیں جن سے ہمیں ہلکی سی جلن ہوتی ہے۔اگر ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں تو یہ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے  لیکن ہم انہیں کریدتی ہیں۔

عورت اپنی ساس کی برائی شوہر سے اور ساس بہو کی برائی اپنے بیٹے سے کرتی رہے  تو یہ باتیں دل میں بیٹھ جاتی ہیں۔ لہٰذا ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو  کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اس کو گھر کی نوکرانی تصور نہ کرے، اس کی غلط باتوں کو جہاں تک ممکن ہو نظر انداز کرے اور اچھی تدبیر سے کام لے۔بہو کو بھی چاہیے کہ اگر ساس کسی بات پر ڈانٹ دیں اور غصہ کر یں تو یہ سوچ کر صبر کر لے اور پلٹ کر جواب نہ دے کہ اگر اس جگہ میری ماں ہوتی تو میرا کیا ردِّ عمل ہوتا؟ دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے حقوق کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرتی رہیں، صبر و برداشت اور در گز سے کام لیں۔

الغرض اگر ہم زندگی کو خوشحال بنانا چاہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ہماری زندگی دوسروں کے لئے آئیڈیل بن جائے تو آپس میں خوب محبت سے رہیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔

اگر ساس بہو آپس میں ایک دوسرے کی محبت کو کم ہوتا دیکھیں تو اس کے لئے خوب دعا کریں۔

اگر ساس بہو ان باتوں کو اپنا لیں گی اور ان اصولوں کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے کا ارادہ کر لیں تو الله پاک کے کرم سے دنیا اور آخرت  میں کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں گی اور اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے والی بن جائیں گی۔

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو اچھے انداز سے سمجھنے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور ساس بہو کو نرم گفتگو کرنے اور اچھے طریقے سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم



[1] شعب الایمان، 6/ 415، حدیث:8720


Share