رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خواتین  پر احسانات

اسلام اور عورت

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خواتین پر احسانات

on women صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    Favours of Rasoolullah

*مولانا عدنان چشتی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2023ء


نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد سے پہلے عورتوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے تصور سے ہی بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ کسی کے ہاں بیٹی کی ولادت ہوجاتی تو غم و غصّے کے مارے اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ، غصے کی آگ بجھانے اور شرمندگی مٹانے کے لئے اس ننھی کلی کو ” زندہ ہی دفن “ کر دیا جاتا۔ اگر اِسے زندہ رہنے کا موقع مل بھی جاتا تو وہ زندگی بھی کسی عذاب سے کم نہ ہوتی ، جانوروں کی طرح مارنا پیٹنا ، بدن کے اعضا کاٹ دینا ، میراث سے محروم کر دینا ، پانی کے حصول کے لئے دریاؤں کی بھینٹ چڑھا دینا عام سی بات تھی۔ کہیں باپ کے مرنے کے بعد بیٹا اپنی ہی ماں کو لونڈی بنا لیتا ، کہیں مالِ وراثت کی طرح اسے بھی بانٹ لیا جاتا۔ عورت ایک ” نوکرانی “ اور نفسانی خواہشات پورا کرنے کا ” آلہ “ ہی سمجھی جاتی۔ بےبسی کے اس عالَم میں لاچار عورتوں کی مدد اور ان کے غموں کا مُداوا کرنے والا کوئی نہ تھا۔ بِالآخر سالوں سے جاری ظلم و ستم کی اندھیری رات ختم ہوئی اور بی بی آمنہ کے لال ، جنابِ احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دنیا میں جلوہ فرما ہوئے۔ آپ نے عورت کو عزّت و شرف کا وہ بلند مقام عطا کیا ، جو صرف آپ ہی کا خاصہ ہے۔ آپ نے عورت کے ہر کردار یعنی بیٹی ، بہن ، ماں ، بیوی وغیرہ کے حقوق کی حفاظت فرمائی اور ان پر رہتی دنیا تک کے لئے احسانات فرمائے ۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بیٹی پر احسانات

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری سے پہلے بیٹی کو منحوس ، بوجھ اور ذلت و رُسوائی کا سبب سمجھا جاتا تھا ، بیٹی کی پیدائش کا سُن کر غصے کے مارے باپ کا منہ سیاہ ہوجاتا۔[1]کوئی اس ننھی جان کو قتل کر کے کتّے کو کھلا دیتا۔[2]تو کوئی زندہ دفن کردیتا ، جیسا کہ ایک شخص نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے اپنی زندہ بیٹی کو کنویں میں پھینکنے کا اقرار کیا۔[3]  ایک نے زمانۂ جاہلیت میں اپنی آٹھ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے پر ندامت کا اظہار کیا۔[4]

حضرت صعصعہ بن ناجیہ رضی اللہ عنہ دروازۂ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کلمہ پڑھنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ دورِ جاہلیت میں ایک مرتبہ ان کے اونٹ گم ہوگئے ، وہ انہیں تلاش کرتے کرتے ایک جگہ پہنچے جہاں ایک بوڑھا شخص ان کے اونٹوں کو لئے بیٹھا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں ابھی اونٹوں کی بات کرہی رہا تھا کہ اس بوڑھے کو ایک بچے کی ولادت کی خبر ملی ، اس نے پوچھا کہ کیا پیدا ہوا ؟ اگر بیٹا ہے تو ہم اسے اپنے ساتھ شریک کریں گے اور اگر بیٹی ہے تو اسے دفن کردیں گے۔ حضرت صعصعہ فرماتے ہیں کہ میں نے اسے کہا کہ میں تم سے یہ نومولود بچی خریدنا چاہتاہوں ، چنانچہ کچھ بحث کے بعد انہوں نے وہ بچی تین اونٹوں کے بدلے میں خرید لی۔ پھر وقت گزرتا گیا اور اسلام آگیا۔ اس دوران میں نے تین سو ساٹھ360 نومولود بچیوں کو دو ، دو اونٹوں کے بدلے میں خرید کر قتل ہونے سے بچایا ۔[5]  اس روایت سے واضح ہوتاہے کہ  بیٹی کی ولادت پر کس قدر  ظلم ہوتے تھے۔

رسولِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیٹی پر ہونے والے ان مظالم کا راستہ بند کیا اور بیٹی کو عظمت و رفعت سے نوازا۔ بیٹی پر کیسا عظیم احسان فرمایا کہ انبیا کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی بیٹی  خاتونِ جنّت  بی بی فاطمۃ الزہراء کی تعظیم کے لئے بنفسِ نفیس کھڑے ہوجاتے ، ہاتھ چومتے اور اپنی مسند پر بٹھاتےہیں۔[6]  یہ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں کہ جنہوں نے بیٹی کی خوش دلی سے پرورش کرنے اور بیٹے کو بیٹی پر فضیلت نہ دینے والے کو جنّت میں داخلے کی خوشخبری دی ہے۔[7]تین بیٹیوں کا خیال رکھنے ، اچھی رہائش دینے اور ان کی کفالت کرنے والے پر جنّت واجب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے بلکہ یہی نوید دو اورایک بیٹی پربھی عطافرمائی۔[8]بیٹیوں کی اچھی پرورش کے صلے میں جنّت میں اپنی رفاقت کی خوشخبری دی ہے۔[9]  بیٹیوں کو خوش رکھنے والے کو اللہ کریم کی رضا و خوشی کی نوید سنائی ہے۔[10]

کیا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس قدر احسانات کے باوجود کوئی بیٹی اپنے محسن اور شفیق نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات سے روگردانی کرنے کی نادانی کر سکتی ہے ! نہیں ہرگز نہیں کیونکہ نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیٹی کو وہ عزت ، مقام و مرتبہ اور فضیلت عطا فرمائی ہے کہ اگر ساری دنیا کی بیٹیاں اپنی زندگی کی آخری سانس تک اس احسان کا شکر ادا کرتی رہیں پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتیں۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ماں پر احسانات

 ماں وہ پاکیزہ رشتہ ہے کہ جس کا خیال آتے ہی ایثار ، قُربانی ، وفاداری اورشفقت و مہربانی کی تصویرآنکھوں کے سامنے آجاتی ہے لیکن افسوس ! حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے محبّت و رَحمت کی پَیکر ماں کو زمانَۂ جاہلیت نے اذیّتوں اور دُکھوں کے سوا کچھ نہ دیا۔

اسلامی تعلیمات سے دور ، غیراِسلامی مُعاشَروں میں آج بھی ماں کی حالت دورِجاہلیت کے رَوَیّوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ جس ماں نے 9مہینے تک خونِ جگر سے بچے کی پرورش کی ، اس کی ولادت کی تکلیفوں کو برداشت کیا ، ولادت کے بعد اس کی راحت کے لئے اپنا آرام و سکون نچھاور کیا اُس ماں کو گھر میں عزّت کا مقام دینے کی بجائے نہ صرف اس کی خدمت سے جی چرا یا بلکہ کُتّوں کو اپنے ساتھ بستر پر جگہ دے کر ماں کو اولڈ ہاؤس ( Old House ) کے سپرد کر دیا ہےجبکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے دینِ اِسلام میں عورت بحیثیتِ ماں ایک مُقدّس مقام رکھتی ہے۔ عورت پر ماں کی حیثیت میں بھی رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بےشمار احسانات ہیں۔ آپ نے ماں کے قدموں تلے جنّت ہونے کی بشارت دی۔[11]

رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے محبت و شفقت سے ماں یا باپ کے چہرے پر ڈالی جانے والی ہر نظر کے بدلے مقبول حج کی بشارت عطا فرمائی۔[12]

آپ نے اپنی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ  رضی اللہ عنہا کے آنے پر اُن کےلئے اپنی مُبارَک چادر بچھادی۔[13]

ایک صحابی  رضی اللہ عنہ کے تین بار یہ پوچھنے پر کہ میرے حُسنِ سُلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ تین بار فرمایا : تیری ماں ، چوتھی بار اسی سوال کے جواب میں فرمایا : تیرا باپ۔[14]

حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ماؤں پر احسانات کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عَون رحمۃُ اللہ علیہ نے والدہ کے سامنے آواز اُونچی ہو جانے پر دوغلام آزاد کئے۔[15]  مشہور تابعی بزرگ حضرت طَلْقْ رحمۃُ اللہ علیہ اُس مکان کی چھت پر تعظیماًنہ چلتے جس کے نیچے ان کی والدہ ہوتیں۔[16]

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ان احسانات کی قدر کرتے ہوئے ہر ” ماں “ کو چاہئے کہ خود بھی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات پر عمل کرےاور اپنی اولاد کو بھی علم ِ دین کے زیور سے آراستہ کرے۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہن پر احسانات

رسولِ رحمت ، مالکِ جنّت جنابِ محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد سے پہلے ماں اوربیٹی کی طرح ” بہن  “ کے ساتھ بھی کوئی اچھا سُلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ عورتوں کے سب سے بڑے خیر خواہ ، مدینے کے سلطان ، رحمتِ عالمیان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھائیوں کو بہنوں کی عزّتوں کا رَکھوالا یوں بنایا : ” جس كى تىن بىٹىاں ىا تىن بہنىں ہوں ىا دو بىٹىاں ىا دو بہنىں اور اس نے ان كے ساتھ حُسنِ سُلُوك كىااور ان كے بارے مىں اللہ پاک سے ڈرتا رہا تو اسےجنّت ملے گى۔[17]  بلکہ ایک مرتبہ تو چاروں انگلیاں جوڑ کر جنّت میں رفاقت کی خوشخبری سنائی : ایسا شخص جنت میں میرے ساتھ یوں ہو گا۔[18]

اسی طرح نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہنوں پر خَرْچ کو دوزخ سے رُکاوٹ کا یوں سبب بتایا : جس نے اپنی دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو رشتہ دا ر بچیوں پر اللہ پاک کی رضا کے لئے خرچ کیایہاں تک کہ اللہ پاک نے انہیں اپنے فضْل سے غنی کر دیاتو وہ اُس کے لئے آگ سے پردہ ہوجائیں گی۔[19]

نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی رَضاعِی  ( دودھ شریک )  بہن حضرت شیماء  رضی اللہ عنہا کےساتھ یوں حُسنِ سُلُوک فرمایا :  ( 1 ) اُن کےلئےقیام فرمایا ( یعنی کھڑے ہوئے )[20]   ( 2 ) اپنی مُبارَک چادر بچھا کر اُس پر بٹھایا اور  ( 3 ) فرمایا : مانگو ، تمہیں عطا کیا جائے گا ، سفارش کرو ، تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔[21]اس مثالی کرم نوازی کے دوران آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مُبارَک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے  ( 4 ) یہ بھی فرمایا : اگر چاہو تو عزّت و تکریم کے ساتھ ہمارے پاس رہو  ( 5 ) واپس جانے لگیں تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین غلام اور ایک لونڈی نیز ایک یا دو اونٹ بھی عطا فرمائے  ( 6 ) جب جِعْرَانَہ میں دوبارہ انہی رَضاعی بہن سے ملاقات ہوئی تو بھیڑ بکریاں بھی عطا فرمائیں۔[22]ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اپنی رَضاعی بہن سے حُسْنِ سُلُوک ہر بھائی کویہ اِحساس دِلانے کے لئے کافی ہےکہ بہنیں کس قَدْر پیاراورحُسنِ سُلُوک کی مستحق ہیں۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےشادی شدہ عورتوں پر احسانات

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد سے قبل طرح طرح کے مظالم کا شکار ہونے والی عورتوں میں ایک رشتہ بیوی کا بھی تھا۔رسولِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیوی کے رشتہ پر اس قدر احسانات فرمائے کہ نکاح کے ذریعے عورت سے قائم ہونے والے رشتے کو مَرد کے آدھے ایمان کا محافظ قرار دیا۔[23]

بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والے کو بہترین شخص قراردیا۔[24]  ایک شخص نے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا : شوہر پر بیوی کا کیا حق ہے ؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب  ( مَرد )  کھائے تو اُسے  ( بھی )  کھلائے ، جب لباس پہنے تو اسے بھی پہنائے اور چہرے پرہرگز نہ مارے ، اسے بُرا بھلا ( یا بدصورت )  نہ کہے اور  ( اگرسمجھانے کے لئے )  اس سے علیحدگی اختیار کرنی ہی پڑے تو گھر میں ہی  ( علیحدگی ) کرے۔[25]

نیک بیوی کو مؤمن کے لئے خوفِ الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت قرار دیا۔[26]

یہ والیِ امّت ، محسنِ انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عورتوں پر احسان ہے کہ انہیں کھانے کو حلال اور پینے کو دودھ کی نعمت نصیب ہے ورنہ اسلام سے پہلے عورتوں کو ان نعمتو ں سے بھی محروم کر دیا جاتا تھاچنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اہلِ عرب ” دودھ “ کو اپنی عورتوں کے لئے حرام قرار دیتے تھے ، اِسے صرف مرد ہی پیا کرتے تھے ، اسی طرح جب کوئی بکری نَر بچہ جنتی تو وہ ان کے مَردوں کا ہوتا اور اگر بکری پیدا ہوتی تو وہ اسے ذبح نہ کرتے ، یونہی چھوڑ دیتے تھے اور اگر مردہ جانور ہوتا تو  ( اُس حرام جانور کو کھانے میں ) سب شریک ہوتے۔ اللہ پاک نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔[27] اس طرح کے سینکڑوں احسانات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر عورت ماں ہو یا بیوی ، بہن ہو یا بیٹی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک تعلیمات کو دل و جان سے عزیز جانے اور ان ہی کے مطابق زندگی گزارنے کی بھرپور کوشش کرے ۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عورت کے ہر رشتے کو عزّت بخشی اگر عورت بیٹی ، بہن ، پھوپھی ، خالہ ، نانی یا دادی ہے تو اس کی کفالت پرفرمایا : جس نے دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو خالاؤں یا دو پھوپھیوں یا نانی اور دادی کی کفالت کی تو وہ اور میں جنت میں یوں ہوں گے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی شہادت اور اس کے ساتھ والی انگلی کو ملایا۔[28]

اَلْغَرَض عورت کو ماں ، بیٹی ، بہن اور بیوی کی حیثیّت سے جو عزّت وعظمت ، مقام ومرتبہ اور اِحتِرام ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عطافرمایا ہے ، دنیا کے کسی قانون ، مَذہب یا تہذیب نے نہیں دیا۔حضور جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس قدر اِحسانات کے ہوتے ہوئے کسی ” خاتون “ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اسلامی تعلیمات کو چھوڑ کراپنے لباس ، چال ڈھال ، بول چال ، کھانے پینے ، مِلنے ملانےوغیرہ میں غیروں کے دئیے ہوئے انداز اپنائے ! لہٰذاہر خاتون کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی اللہ پاک اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِطاعت میں گزارے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] پ14 ، النحل : 58ماخوذاً

[2] تفسیرطبری ، 12 / 464 ، التکویر : تحت الآیۃ8

[3] دارمی ، 1 / 14 ، حدیث : 2ملخصاً

[4] کنزالعمال ، 1 / 231 ، جزء : 2 ، حدیث : 4687

[5] معجم کبیر ، 8 / 76 ، حدیث : 7412

[6] ابوداؤد ، 4 / 454 ، حدیث : 5217

[7] مستدرک ، 5 / 248 ، حدیث : 7428

[8] معجم اوسط ، 4 / 347 ، حدیث : 6199ملخصاً

[9] مسنداحمد ، 4 / 296 ، حدیث : 12500ملخصاً

[10] فردوس الاخبار ، 2 / 263 ، حدیث : 5830ملخصاً

[11] مسندالشّہاب ، 1 / 102 ، حدیث : 119

[12] شعب الایمان ، 6 / 186 ، حدیث : 7856

[13] ابوداؤد ، 4 / 434 ، حدیث : 5144

[14] بخاری ، 4 / 93 ، حدیث : 5971

[15] حلیۃ الاولیاء ، 3 / 45 ، رقم : 3103

[16] بر الوالدین ، ص78

[17] ترمذى ، 3 / 367 ، حدیث : 1923

[18] مسند احمد ، 4 / 313 ، حدیث : 12594

[19] مسند احمد ، 10 / 179 ، حدیث : 26578ملتقطا

[20] سبل الھدیٰ والرشاد ، 5 / 333

[21] دلائل النبوۃ للبیہقی ، 5 / 199 ، ملتقطاً

[22] سبل الھدیٰ والرشاد ، 5 / 333 ملتقطاً

[23] معجم اوسط ، 5 / 372 ، حدیث : 7647

[24] ترمذی ، 5 / 475 ، حدیث : 3921

[25] ابن ماجہ ، 2 / 409 ، حدیث : 1850

[26] ابن ماجہ ، 2 / 414 ، حدیث : 1857

[27] تفسیر طبری ، 5 / 357 ، الانعام ، تحت الآیۃ : 139

[28] معجمِ کبیر ، 22 / 385 ، حدیث : 959


Share