حفظِ مراتب کا خیال کیجئے(دوسری اور آخری قسط)

اسلام کی روشن تعلیمات

حفظ مراتب کا خیال کیجئے(دوسری اور آخری قسط)

*مولانا ابو واصف عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

حفظِ مراتب کا عملی مظاہرہ: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نہ صرف زبانی حفظِ مراتب کا خیال رکھنے کا فرمایا بلکہ عملی طور پر بھی کئی بار اس کا اظہار فرمایا، اپنے قول وعمل دونوں سے سکھایا کہ لوگوں کے حسبِ حال انہیں عزت دی جائے، ان کے دینی یا دنیاوی عہدہ و منصب کی رعایت کی جائے اور دیگر لوگوں سے بڑھ کر اکرام و احترام کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت سعد رضی اللہُ عنہ کے آنے پر آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انصار سے فرمایا: قُومُوا اِلٰی سَیِّدِکُم یعنی اپنے سردار کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔([1]) یہاں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قبیلے والوں سے اُن کے سردار کی تعظیم کروائی اور انہیں باور کروایا کہ جو بڑا ہے اُسے اُس کے مقام و مرتبہ میں رکھو۔ اس کے علاوہ بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعض افراد کی عزت افزائی کے لئے ا ور لوگوں میں ان کے مقام کا خیال رکھتے ہوئے خود کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا، حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں: حضورنبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عِکرمہ بن ابوجہل رضی اللہُ عنہ اور حضرت عَدی بن حاتِم رضی اللہُ عنہ کی آمد پر ان کی عزت افزائی کے لئے قیام فرمایا۔([2]) اور شہزادیِ کونین، خاتونِ جنّت سیدۂ کائنات حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہُ عنہا کے لئے تو حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بارہا قیام فرمایا۔ درج ذیل احادیثِ مبارکہ بھی حفظِ مراتب کا خیال رکھنے کے عملی مظاہرے کو بیان کرتی ہیں۔

کسی موقع پر ایک بڑی عمر کے صحابی رضی اللہُ عنہ آئے، وہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب آنا چاہتے تھے، لوگوں نے ان کے لئے جگہ کشادہ کرنے میں دیر کی، تو نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔“ ([3])

مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے گھر میں تشریف فرما تھے کہ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، حتی کہ گھرمبارک بھر گیا اور اس میں گنجائش باقی نہ رہی۔ اتنے میں حضرت جَرِیْربن عبد اللہ بَجَلی رضی اللہُ عنہ آئے تو اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے دروازے پر ہی بیٹھ گئے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ملاحظہ فرمایا تو اپنی چادر لپیٹ کر ان کی طرف اُچھال دی اور ارشاد فرمایا: ”اس پر بیٹھ جاؤ۔“ انہوں نے چادر کو اپنے چہرے پر رکھا اور اسے چومتے ہوئے رونے لگے پھر چادر لپیٹ کر بارگاہِ اقدس میں پیش کردی اور عرض کی:میری کیا مجال کہ میں آپ کی چادر پر بیٹھوں، جس طرح آپ نے مجھے عزت دی اللہ پاک آپ کی مزید عزت افزائی فرمائے۔ یہ سُن کر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دائیں، بائیں دیکھا اور ارشادفرمایا: اِذَا اَتَاکُمْ کَرِیْمُ قَوْمٍ فَاَکْرِمُوْہ یعنی جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز شخص آئے تو اسے عزت دو۔([4])

عمدہ پوشاک اور 100دینار عطا فرمائے: ایک شخص مولیٰ علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: ”امیرُ المؤمنین! مجھے آپ سے ایک کام ہے جو آپ کے سامنے پیش کرنے سے پہلے میں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کردیا ہے۔ اگر آپ نے میرا وہ کام کردیا تو میں اللہ پاک کی حمد بجالاؤں گا اور آپ کا شکریہ ادا کروں گا اور اگر آپ نے وہ کام پورا نہ فرمایا تو بھی میں اللہ پاک کی حمد بجالاؤں گا اور آپ کا قصور نہ سمجھوں گا۔“ مولیٰ علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم نے فرمایا: ”تمہاری جو ضرورت ہے وہ زمین پر لکھ دو، میں تمہارے چہرے پر ہاتھ پھیلانے کی بے وقعتی نہیں دیکھنا چاہتا۔“ اس شخص نے لکھا: ”میں حاجت مند ہوں۔“ امیرُ المؤمنین حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ نے یہ دیکھ کر فرمایا: ”میرے پاس ایک عمدہ پوشاک لائی جائے۔“ پوشاک لائی گئی۔ اس شخص نے وہ لے کر پہن لی۔ پھر وہ یہ اشعار کہنے لگا:

کَسَوْتَنِیْ حُلَّۃً تَبْلٰی مَحَاسِنُہَا

فَسَوْفَ اَکْسُوْکَ مِنْ حُسْنِ الثَّنَا حُلَلًا

اِنْ نِلْتَ حُسْنَ ثَنَائِیْ نِلْتَ مَکْرُمَۃً

وَلَسْتَ تَبْغِیْ بِمَا قَدْ قُلْتُہٗ بَدَلًا

اِنَّ الثَّنَاءَ لَیُحْیِیْ ذِکْرَ صَاحِبِہٖ

کَالْغَیْثِ یُحْیِیْ نَدَاہُ السَّہْلَ وَالْجَبَلَا

لَا تَزْہَدِ الدَّہْرَ فِیْ خَیْرٍ تُوَافِقُہُ

فَکُلُّ عَبْدٍ سَیُجْزٰی بِالَّذِیْ عَمَلَا

ترجمہ: آپ نے مجھے ایک پوشاک پہنائی جس کی خوبیاں ختم ہونے والی ہیں، میں آپ کو اچھی تعریف کی پوشاکیں اوڑھاتا ہوں۔ اگر آپ میری خوبصورت تعریف کو قبول کرتے ہیں تو ایک عطیہ قبول فرماتے ہیں حالانکہ بدلے میں میری کہی گئی باتوں کی آپ کو طلب نہیں۔ بلاشبہ تعریف تو تعریف والے کا ذکر یوں زندہ رکھتی ہے جیسے بارش ہموار زمینوں اور پہاڑوں کو زندگی دیتی ہے۔ موافق آنے والی خیروبھلائی کے معاملے میں دنیا سے منہ نہ موڑو کہ ہر بندے کو اپنے کئے کا بدلہ دیا جائے گا۔

اشعار سُن کر حضرت مولیٰ علی رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: ”سونے کے سکے لائے جائیں۔“ چنانچہ سونے کے سو سِکّے لائے گئے تو آپ نے وہ بھی اس ضرورت مند کو عطا فرمادئیے۔ راوی اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: ”امیرُ المؤمنین! عمدہ پوشاک اور سونے کے سو سِکّے دونوں؟“ ارشادفرمایا: ہاں! میں نے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ ”اَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ یعنی لوگوں سے ان کے مرتبوں کے مطابق پیش آؤ۔ “ اور اس شخص کا میرے نزدیک یہی مرتبہ ہے۔([5])

صحابۂ کرام کے لئے حفظ مراتب: حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگرافرادِ اُمّت میں مراتب و مناصب کا واضح فرق ہے اور یہ فرق شریعت نے قائم فرمایا ہے، یہ کس شان والے تھے، خلفائے راشدین کے بعد سب سے زیادہ علم والے عظیم صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ کی زبانی ملاحظہ کیجیے، وہ فرماتے ہیں: قابلِ تقلیداورلائقِ پیروی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابۂ کرام ہیں، یہ نفوس قدسیہ اُمّت میں سب سے اَفْضل، سب سے زیادہ نیک، سب سے بڑھ کرعلم والے ہیں، ان کے اَعمال دکھاوے سے پاک ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رَفاقت و صحبت اور خدمت ِدین کے لئے منتخب فرمایا، لہٰذا ان کا فَضْل وکما ل پہچانو، ان کے فرامین اور طور طریقوں کی پیروی کرو، جس قدَرممکن ہوان کے اخلاق و سیرت کو اختیار کرو کہ بےشک یہ لوگ دُرُست راہ پر قائم تھے۔([6]) غیرصحابہ سے ان کے مقام ومرتبہ کے بہت زیادہ اونچا ہونے کو ایک موقع پر رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں بیان فرمایا: تمہارا اُحُد پہاڑ جتنا سونا خیرات کرنا میرے کسی صحابی کے مٹھی بھر جَو خیرات کرنے بلکہ اُس کے آدھے کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔([7]) حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:یعنی میرا صحابی قریبًا سَواسیر جَو خَیرات کرے اوراُن کے علاوہ کوئی مُسلمان خواہ غَوث و قُطب ہو یا عام مُسلمان، پہاڑ بھرسونا خیرات کرے تو اُس کا سونا قُربِ الٰہی اور قَبولیّت میں صَحابی کے سَوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا، یہ ہی حال روزہ، نمازاور ساری عبادات کا ہے۔ جب مسجدِنَبَوی کی نمازدوسری جگہ کی نمازوں سے پچاس ہزار گُنا (زیادہ ثواب والی) ہے، تو جنہوں نے حُضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاقُرب اور دیدار پایا اُن کا کیا پُوچھنا اور اُن کی عبادات کا کیا کہنا؟ ([8])

مراتبِ صحابہ میں باہم فرق ہے: پھر یہ کہ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی باہم مراتب کا فرق ہے، جیسے ان میں سب سے افضل ہستی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کی ہے، پھر دیگر کا مقام ہے، لہٰذا ان کے باہمی مراتب کا خیال رکھنا اور جس کا جو مقام ہے، اُسے اُسی پر رکھنا اورسمجھنا ضروری ہے۔ لہٰذا یہ نعرہ لگانا غلط ہے کہ ”علی دا پہلا نمبر“ کیونکہ جو ترتیب خلفائے راشدین کی خلافت کی ہے وہی ترتیب ان کی فضیلت کی ہے تو پہلا نمبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کا ہے کہ وہ خلافت میں بھی اول ہیں اور فضیلت میں بھی اول ہیں۔

علماوسادات کے لئے حفظ مراتب: یوں ہی ساداتِ کرام اور علمائے دین کا مرتبہ عام لوگوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس بارے میں جب امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ سے سوال ہواتو آپ نے جو جواب ارشاد فرمایا، اُس کا خلاصہ آسان لفظوں میں یہ ہے: علمائے کرام اور سادات عظام کو اللہ پاک نے رتبہ و ترجیح دی ہے تو انہیں عام مسلمانوں سے زیادہ عزت دینا شریعت کا حکم ماننا اور حق دار کو اس کا پورا حق دینا ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:

(قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَؕ-)

ترجَمۂ کنزالعرفان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟([9])

جب اللہ پاک نے عالموں اور جاہلوں کو ایک مرتبے میں نہیں رکھا تو مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ ان میں فرق رکھیں۔ علمائے کرام کو محافل میں مرکزی،نمایاں اور عزت کی جگہ بٹھانا بھی اسی بات سے تعلق رکھتا ہے اور مسلمانوں میں یہ عمل شروع سے اب تک رائج ہے، یہ شریعت اور عرف وعادت ہر دو لحاظ سے پسندیدہ اور مطلوب ہے۔([10])

امتیازی مقام و مرتبہ طلب نہ کیاجائے: یاد رہے کہ سادات کرام اور علمائے دین بذات خود اپنے لئے امتیازی سلوک کا مطالبہ نہ کریں، اونچی اور نمایاں کرسی پر بیٹھنے کی خواہش نہ کریں۔ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ علماء وسادات کو یہ ناجائزوممنوع ہے کہ خود اپنے لیے سب سے امتیاز چاہیں اور اپنے نفس کو دوسرے مسلمانوں سے بڑاجانیں کہ یہ تکبر ہے اور تکبر زبردست بادشاہ اللہ پاک کے سوا کسی کو لائق نہیں، بندے کے حق میں گناہ اکبرہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ(۶۰))

ترجَمۂ کنز العرفان: کیا متکبروں  کا ٹھکانہ جہنم میں  نہیں  ہے؟([11])

جب سب علما کے آقا، سب سادات کے جدِّ امجد حضور پرنور سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انتہا درجہ کی تواضع فرماتے، کہیں ٹھہرنے، بیٹھنے، کھانے اور لوگوں کے ساتھ چلنے وغیرہ کسی معاملے میں حاضرین پر ترجیح کا مطالبہ نہ فرماتے تو دوسرے کی کیاحقیقت ہے مگرمسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ سب سے زیادہ علمائے کرام وسادات عظام کو عزت وترجیح دیں، یہ ایسا ہے کہ کسی شخص کالوگوں سے اپنے سامنے کھڑے رہنے کا مطالبہ کرنا جائز نہیں جبکہ لوگوں کا خود سے کسی قابل تعظیم مذہبی شخصیت کے لیے کھڑا ہونا پسندیدہ ہے۔([12])

یہ بھی واضح رہے کہ جب مسلمان کسی عالم وسید صاحب وغیرہ کے ساتھ عزت واحترام سے پیش آئیں اور انہیں دوسروں پر ترجیح وفوقیت دیں تو اب ان حضرات کا اِ س عزت وترجیح کو قبول کرنا منع نہیں۔ چنانچہ مولائے کائنات حضرت علی المرتضی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم کے متعلق مروی ہے کہ آپ کسی کے ہاں تشریف لے گئے، صاحب خانہ نے آپ کیلئے ایک بچھونا بچھایا تو آپ اُس پر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا: لَایَاْبَی الْکَرَامَۃَ اِلَّاحِمَارٌ یعنی عزت وتوقیر کا انکار کوئی گدھا ہی کرے گا۔([13])

خلاصہ یہ کہ جو اکابر ہیں، بڑے ہیں، اللہ پاک نے انہیں بڑائی دی ہے، مقام ومرتبہ سے نوازا ہے تو ہمیں بھی انہیں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ عزت واحترام دینا چاہئے۔ دین و شریعت بھی یہی بتاتے سکھاتے ہیں، زمانے کا رواج، باشعور لوگوں کی عادات اور عقل انسانی سب کا بھی یہی تقاضا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ تراجم، اسلامک ریسرچ سنٹر المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])بخاری، 4/174، حدیث:6262

([2])مراٰۃ المناجیح،6/370

([3])ترمذی، 3/ 369، حدیث: 1926

([4])ابن ماجہ، 4/ 208، حدیث: 3712-احیاء العلوم، 2/ 719

([5])کنزالعمال، جز6، 3/268، حدیث: 17142

([6])مشکاۃ المصابیح،1/57،حدیث:193

([7])صحیح بخاری،2/522، حدیث:3673

([8])مراٰۃ المناجیح،8/335

([9])پ23، الزمر:9

([10])فتاویٰ رضویہ،23/718

([11])پ24،الزمر:60

([12])فتاویٰ رضویہ،23/719، ملخصاً

([13])مقاصد حسنہ،ص469، حدیث:1317


Share

Articles

Comments


Security Code