رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ذوقِ عبادت

نیکیاں

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذوقِ عبادت

*مولانا راشد نور عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ ستمبر 2023ء

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دینِ اسلام کی تعلیم و تبلیغ کی دن رات کی مصروفیات کے باوجود اللہ رب العزّت کی بہت عبادت کیا کرتے تھے۔ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی غارِ حرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر اللہ کریم کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بعض اوقات ساری ساری رات عبادتِ الٰہی میں گزار دیتے اور طویل قیام فرمانے کی وجہ سےآپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدمینِ شریفین سُوج جاتےتھے ، پھر بھی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔

حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز میں اس قدرقیام فرماتے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مُبارک پاؤں سُوج جاتے۔ ( ایک دن )  حضرت عائشہ صِدّیقہ  رضی اللہ عنہا نے عَرض کی : یارسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ ایسا کر رہے ہیں حالانکہ اللہ کریم نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں ! آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اے عائشہ ! ”اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا“ کیا میں اللہ پاک کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔  [1]

نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نمازسےمحبت :

اللہ کریم کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نمازسے بہت محبت تھی ، آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔[2]جب نماز کا وقت ہوتاتو آقاکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے : قُمْ یا بِلَالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِاے بلال ! اٹھو اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔“[3]

نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نمازکی کیفیت :

حضرت عبداللہ بن شخیر  رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کیفیتِ نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی آواز ہوتی ہے۔[4]

ان دونوں روایات سے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نماز سے محبت اور خشوع و خضوع کا اندازہ ہوتا ہے ، کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے امتی ہونے کے ناطے ہمیں بھی نماز کو واقعی اپنی راحت و سکون کا ذریعہ بنانا چاہئے۔

نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کانمازِ تہجد کا معمول :

اللہ کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عمر نمازِ تہجد کے پابند رہے ، راتوں کے نوافل کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض روایتوں میں یہ آیا ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نمازِ عشاء کے بعد کچھ دیر سوتے پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔ صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں میں مشغول رہتے ۔کبھی آدھی رات گزر جانے کے بعد بسترسے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر سے پیٹھ نہیں لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں نمازوں میں پڑھا کرتے ،  کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا توکبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت ، کبھی آٹھ رکعت ، کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ پڑھا کرتے۔ عمر شریف کے آخری حصے میں کچھ رکعتیں کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے ، نمازِ وتر نمازِ تہجد کے ساتھ ادا فرماتے تھے چنانچہ آقاکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نمازِ تہجد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ نماز ( تہجد )  پڑھی۔ آپ نے سورۂ بقرہ پڑھنی شروع کی۔ میں نے دل میں کہا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سو آیات پڑھ کر رکوع میں چلے جائیں گے ، لیکن آپ پڑھتے رہے۔ پھر میں نے دل میں کہا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے ایک رکعت میں ختم کریں گے۔ مگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے رہے۔ میں نے سوچا کہ آپ اسے پڑھ کر رکوع کریں گے۔ لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سورۃ النسآء شروع کردی اور اسے پورا پڑھ ڈالا۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اٰلِ عمراٰن شروع کی اور اسے بھی پورا پڑھ ڈالا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کررہے تھے۔ جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر کسی ایسی آیت پر ہوتا جس میں تسبیح  ( اللہ کی پاکی )  کا بیان ہوتا ، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تسبیح کرتے اور جب کسی ایسی آیت سے گزرتے ، جس میں  ( اللہ سے )  مانگنے کا ذکر ہوتا ، تو مانگتےاور اگر کسی ایسی آیت سے گزرتے ، جس میں پناہ مانگنے کا ذکر ہوتا ، تو پناہ مانگتے۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رکوع کیا اور ”سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيم“ پڑھنے لگے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رکوع آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قیام کے بقدر تھا۔ پھر آپ نے”سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدکہا اور طویل وقت تک کھڑے رہے ، جو رکوع کے لگ بھگ تھا۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سجدہ کیا اور ”سُبْحٰن رَبِّيَ الْاَعْلٰى“ پڑھنے لگے۔ آپ کا سجدہ آپ کے قیام کے بقدر تھا۔[5]

نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رات کا معمول :

اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رات کو آرام بھی فرماتے ، اللہ پاک کی عبادت بھی کرتےاوراپنے اہلِ خانہ کو وقت بھی دیتے تھے تاکہ ہر ایک کو اس کا حق دیا جاسکے چنانچہ حضرت اسودبن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اُمُّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ  رضی اللہ عنہا سے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھاکہ رات کوآقاکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کیا معمول تھا ؟ تو حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا نے فرمایا : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رات کے پہلے حصہ میں سو جاتے ، پھر اُٹھ کرقیام فرماتے تھے ، اس کے بعد جب سحری کا وقت قریب ہوتا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وتر ادا فرماتے ، پھر آپ اپنے بستر پر تشریف لے آتے ، پھر اگر آپ کو رغبت ہوتی تواپنی اہلیہ کے پاس جاتے ، پھر جب اذان سنتے توآپ تیزی سے اٹھتے ، اگر غسل کی حاجت ہوتی تو غسل فرماتے ورنہ صرف وضو فرما لیتے اور نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔[6]

رمضان المبارک میں عبادت کا معمول :

رمضان شریف خصوصاً آخری عشرہ میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات  رضی اللہ عنہنَّ سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں کو نمازوں کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر ، کبھی بیٹھ کر ، کبھی سربسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑگڑا کر راتوں میں دعائیں بھی مانگا کرتے ، رمضان شریف میں حضرت جبریل علیہ السّلام کے ساتھ قراٰنِ عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوت ِقراٰن مجید کے ساتھ ساتھ مختلف دعاؤں کا وِرد بھی فرماتے تھے۔[7]

نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نفلی روزوں کا معمول :

اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کارمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے رکھنے کا بھی معمول تھا چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کبھی اتنے روزے رکھتے تھے کہ ہمارا خیال ہوتا کہ اب کبھی روزے نہ چھوڑیں گےاور پھر آپ کبھی اتنے روزے چھوڑ دیتے کہ ہمارا خیال ہوتاکہ آپ روزے کبھی بھی نہ رکھیں گے۔ مدینۂ طیبہ تشریف لانے کے بعدآپ نے سوائے رمضان کے کبھی بھی مکمل اور مسلسل ایک مہینے کے روزے نہیں رکھے۔ اور نہ کسی ماہ میں آپ کو شعبان سے زیادہ روزے رکھتے ہوئے دیکھا۔[8] ہر مہینےکے شروع میں تین دن روزے رکھتے تھے۔[9]  ایامِ بیض یعنی چاند کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخوں کے روزے نہ سفر کی حالت میں چھوڑتے اور نہ ہی حضر کی حالت میں چھوڑتے۔[10]دس محرم شریف کاروزہ خود بھی رکھا اور اس کے رکھنے کاحکم بھی ارشاد فرمایا۔[11] پیر اور جمعرات کے دن کے روزے کا خاص خیال فرماتے ۔اور ان دونوں دنوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ”پیر اور جمعرات کو اعمال  ( بارگاهِ الٰہی میں )  پیش کئے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔“[12] نیز ایک مرتبہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جب پیرشریف کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا توارشاد فرمایا : ذَاکَ یَوْمٌ وُلِدْتُ فِیْهِ ، وَیَوْمٌ بُعِثْتُ ، اَوْ اُنْزِلَ عَلَيَّ فِیْهِیعنی یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور اسی دن میں مبعوث ہوا یا مجھ پر قراٰن نازل فرمایا گیا۔[13]  کبھی کبھی آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ”صومِ وصال“ بھی رکھتے تھے ، یعنی کئی کئی دن رات کا ایک روزہ ، مگر اپنی اُمّت کو ایسا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے ، بعض صحابہ  رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ تو صوم ِوصال رکھتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ تم میں مجھ جیسا کون ہے ؟ میں اپنے رب کےپاس رات بسر کرتا ہوں اور وہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے۔  [14]

ذکرِ الٰہی میں مشغولیت :

اللہ پاک کے آخری نبی محمدِعربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گناہوں سے معصوم اور رب تعالیٰ کے محبوب ہونے کے باوجود ہمہ وقت اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے ، سفر و حضر ، خلوت وجلوت ، صحت وبیماری الغرض کیسے ہی حالات ہوتے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ  پاک کے ذکر میں مشغول رہتے ، چنانچہ بخاری شریف کی ایک طویل حدیثِ پاک میں یہ بھی ہے ”كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ اَحْيَانِهٖ “نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر وقت اللہ پاک کا ذکر کرتے رہتے تھے۔[15]

اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے ، سوتے جاگتے ، وضو کرتے ، نئے کپڑے پہنتے ، سوار ہوتے ، سواری سے اترتے ، سفر میں جاتے ، سفر سے واپس ہوتے ، بیت الخلاء میں داخل ہوتے اور نکلتے ، مسجد میں آتے جاتے ، جنگ کے وقت ، آندھی ، بارش ، بجلی کڑکتے وقت ، ہر وقت ہر حال میں دعائیں وردِ زبان رہتی تھیں ۔ خوشی اورغمی کے اوقات میں ، صبح صادق طلوع ہونے کے وقت ، غروبِ آفتاب کے وقت ، مرغ کی آواز سن کر ، گدھے کی آواز سن کر ، غرض کون سا ایسا موقع تھا کہ آپ کوئی دعا نہ پڑھتے ، دن ہی میں نہیں بلکہ رات کے سنّاٹوں میں بھی برابر دعا خوانی اور ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے یہاں تک کہ بوقتِ وفات بھی جو فقرہ بار بار وردِ زَبان رہا وہ اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰیکی دعا تھی۔[16]

ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عبادت پر مدد حاصل کرنے کے لئے اللہ کریم سے اس طرح دعا مانگتے تھے : ’’اَللّٰہُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ“ اے اللہ کریم ! تُو اپنے ذِکر ، اپنے شکر اور اپنی عبادت اچھی طرح کرنے پر میری مددفرما۔[17]

راہِ خدا میں خرچ :

 آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقات و خیرات کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے پاس سونا چاندی یا تجارت کا کوئی سامان یا مویشیوں کا کوئی ریوڑ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ بھی آپ کے پاس آتا سب اللہ پاک کی راہ میں مستحقین پر تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ گوارا ہی نہیں تھا کہ رات بھر کوئی مال و دولت کا شانۂ نبوت میں رہ جائے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق پڑا کہ خراج کی رقم اس قدر زیادہ آگئی کہ وہ شام تک تقسیم کرنے کے باوجود ختم نہ ہو سکی تو آپ رات بھر مسجد ہی میں رہے جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آکر یہ خبر دی کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ساری رقم تقسیم ہو چکی تو آپ نے اپنے مکان میں قدم رکھا۔[18]

محترم قارئین ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دونوں جہاں کے سلطان ہونے کے باوجود ہمیشہ عبادتِ الٰہی میں مستغرق رہتے ، نماز کو راحت و سکون کا ذریعہ سمجھتے ، انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا فرماتے ، راتوں کو اٹھ اٹھ کر نوافل ادا فرماتے اور دن میں روزہ رکھتے ، ہر وقت اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے ، اتنی عبادات کرنے کے باوجود مزید عبادت کی توفیق کی دعا فرماتے تھے۔ یقیناً آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذوقِ عبادت ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ ہم بھی نماز سے محبت کریں ، نماز کے ذریعے آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی کوشش کریں ، آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رات کے معمولات سے ترغیب حاصل کرتے ہوئے نوافل ادا کریں اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم فرائض تو پابندی سے ادا کریں ، نفلی روزوں کا اہتمام کریں اور رمضان المبارک کے روزے تو ہرگز نہ چھوڑیں ، تلاوتِ قراٰن کی سعادت حاصل کرتے رہیں اور رمضان المبارک میں تلاوتِ قراٰن مزید بڑھا دیں ، کوشش کر کے ذکر اللہ کے لئے ایک وقت مقرر کریں اور چلتے پھرتے بھی اپنی زبان کو ذکرُ اللہ سے تَر رکھیں ، آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنا تمام مال صدقہ فرما دیا کرتے تھے ہمیں بھی اس ادا سے حصہ حاصل کرتے ہوئے اپنا زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہئے۔ سب سے اہم بات یہ کہ عبادات کی توفیق اور اس پر استقامت پانے کی دعا کرتے رہنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذوقِ عبادت میں سے کچھ حصہ نصیب فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، پراپرٹی اینڈ کنسٹرکشن ڈپارٹمنٹ  ( دعوتِ اسلامی )



[1] مسلم ، ص1160 ، حدیث : 7126

[2] معجم کبیر ، 20 / 420 ، حدیث : 1012

[3] ابوداؤد ، 4 / 385 ، حدیث : 4986

[4] ابو داؤد ، 1 / 342 ، حدیث : 904

[5] مسلم ، ص305 ، حدیث : 1814

[6] شمائل ترمذی ، ص161 ، حدیث : 251

[7] صراط الجنان ، 8 / 377

[8] بخاری ، 1 / 648 ، حدیث : 1969

[9] ترمذی ، 2 / 185 ، حدیث : 742

[10] نسائی ، ص386 ، حدیث : 2342

[11] بخاری ، 1 / 656 ، حدیث : 2004

[12] ترمذی ، 2 / 187 ، 186 ، حدیث : 747 ، 745

[13] مسلم ، ص455 ، حدیث : 2747

[14] بخاری ، 4 / 352 ، حدیث : 6851

[15] بخاری ، 1 / 124

[16] بخاری ، 3 / 154 ، حدیث : 4437 ، سیرت مصطفیٰ ، ص598

[17] مصنف ابن ابی شیبہ ، 15 / 208 ، حديث : 30013

[18] ابو داؤد ، 3 / 231 ، حدیث : 3055


Share