اسلام کی روشن تعلیمات
یہ بھی امانت ہے!
*مولانا محمد احد رضا عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024
تعمیراتی کام کے سلسلے میں اینٹیں درکارتھیں،جس کی خریداری کے لئے دادا ابّو نے اینٹوں کی بھٹی (Br12ick kiln) کی سمت رُخ کیا، وہاں پہنچے تو آس پاس تین چار بھٹیاں تھیں۔ دادا جی ایک بھٹی والے کے پاس گئے اور دُعا و سلام کے بعد کہنے لگے: ”جناب آپ کے پاس میری ایک امانت ہے۔“ وہ چونکا اور بڑی حیرانی سے پوچھنے لگا: بابا جی! بھلا میرے پاس آپ کی کونسی امانت ہے؟ دادا جی مسکراتے ہوئے کہنے لگے: جناب! کسی کو اچھا مشورہ دینا بھی تو امانت ہے! اس نے کہا: کیوں نہیں!کیوں نہیں! آپ پوچھئے؛ دادا جی نے اینٹوں کی کوالٹی اور ان کی تیاری میں شامل میٹیریل کے بارے میں پوچھا،جس پر بھٹی والے نے تمام تفصیلات بیان کردیں۔
اس واقعہ میں جہاں اور لطیف پہلو ہیں،ان میں سے ایک ”مشورہ امانت ہے!“ کا بھی ہے۔ جی ہاں! کسی کو اچھا مشورہ دینا بھی ایک امانت ہے بلکہ اگر کوئی مشورہ لینے آئے تو اسے اچھا اور درست مشورہ دینا واجب ہے۔([i]) حضورنبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے بھائی کو کسی معاملے میں مشورہ دے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ دُرستی اس کے علاوہ میں ہے اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔([ii]) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غَلَط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مُشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن (خیانت کرنے والا) ہے۔([iii]) اور اگر موقع اور صورتِ حال کے مناسب مشورہ بن نہ پڑے تو معذرت کرلی جائے ورنہ کم اَز کم ایسا مشورہ دیا جائے کہ اگر خود پر وہی صورتِ حال پیش آتی تو کیا کرتے جیسا کہ ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ فَاِذَا اسْتُشِيرَ فَلْيُشِرْ بِمَا هُوَ صَانِعٌ لِنَفْسِهٖ یعنی جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہے لہٰذا جب مشورہ لیا جائے تو چاہئے کہ وہ ایسا مشورہ دے جو اپنے لئے کرنا چاہتا۔([iv])بلکہ ایک مُفکِر نے یہاں تک کہا کہ اگر تجھ سے تیرا دشمن بھی مشورہ کرے تو اسے عمدہ مشورہ دے کیونکہ مشورہ کرنے سے اس کی تیرے ساتھ دشمنی محبت میں بدل جائے گی۔([v])
یادرہے کہ جس طرح روپیوں، پیسوں اور مال و سامان کی امانتوں میں خیانت حرام ہے اسی طرح باتوں، کاموں اور عہدوں کی امانتوں میں بھی خیانت حرام ہے۔بلکہ ہر قسم کی امانتوں میں خیانت حرام ہے اور ہر خیانت جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔([vi]) اللہ پاک قراٰنِ کریم میں فرماتا ہے:
(اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-)
ترجَمۂ کنزُ الایمان:بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو۔([vii])
”امانت“ کے مفہوم میں وسعت ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: امانت داری ہر چیز میں لازم ہے، غسلِ جنابت، نماز،روزہ، زکوٰۃ کے علاوہ ناپ تول اور لوگوں کی امانتوں کے معاملے میں بھی اس کا لحاظ رکھا جائے گا۔([viii]) خیانت، امانت کی ضد ہے خفیۃ ًکسی کا حق مارنا خیانت کہلاتا ہے۔ خواہ اپنا حق مارے یا اللہ و رسول کا یا اسلام کا یا کسی بندہ کا۔([ix])
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ امانت کی تین قسمیں(Types) ہیں: (1)اللہ پاک کی امانتیں کہ انسان کے اعضا(organs) رب کی امانتیں ہیں۔ ان سے اللہ کی اطاعت کرنا امانت داری ہے اور ان کے ذریعہ برے کام کرنا ان اعضا کی خیانت،اس میں ساری نیکیاں کرنا اور سارے گناہوں سے بچنا داخل ہے۔ (2)اپنے نفس کی امانت داری کہ ہم پر ہمارے نفس کے حقوق مثلاً جائز طور پر کھانا، سونا اور آرام کرنا امانت داری ہے جبکہ بھوکا رہ کر ہلاک ہوجانا وغیرہ خیانت۔([x]) (3)بندوں کے ساتھ معاملات میں امانت داری یہ ہے کہ لوگوں کی امانتیں انہیں لوٹائی جائیں، ناپ تول میں کمی کرنے سے بچا جائے، لوگوں کی پردہ پوشی کی جائے وغیرہ وغیرہ۔([xi])
ان صورتوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو مسلمان کا ہر قدم امانت کے دائرے میں رہنا ضروری قرار پاتا ہے۔ اسی بات کو حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ بڑے پیارے انداز میں سمجھاتے ہوئے کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں:مسلمان اُس ڈاکیہ (post man)کی طرح ہے جو ڈاک کا تھیلہ لےکر دفتر سے چلے، جس میں سینکڑوں کی امانتیں ہیں اگر ایک منی آرڈر یا پارسل غلط تقسیم ہوگیا تواس کی پکڑ ہے۔ کامیاب ڈاکیہ وہ ہے جو سب کی امانتیں (deposits) درست طور پر تقسیم کرکے لوٹے اور کامیاب مسلمان وہ ہے جو تمام کے حقوق ادا کرکے اپنے گھر یعنی قبر میں جائے۔([xii])
امانت کی تین اقسام سے متعلق چند صورتوں کی تفصیل درج ذیل ہے:
راز کی بات بھی ایک امانت ہے:کسی نے آپ سے اپنے راز کی بات کہی اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ یہ بات امانت ہے کسی سے مت کہئے گا مگر وہ بات آپ نے کسی سے کہہ دی تو یہ امانت میں خیانت ہو گئی۔ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اَلْحَدِیْثُ بَیْنَکُمْ اَمَانَۃٌ یعنی تمہاری باہمی گفتگو امانت ہے۔([xiii])
بات امانت ہونے کا قرینہ: امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اس کے متعلق لکھتے ہیں: بات کے امانت ہونے کے لئے یہ شرط نہیں کہ کہنے والا صَراحَۃ ً (یعنی صاف لفظوں میں) منع کرے کہ کسی کو مت بتانا،بلکہ اگر وہ بات کرتے ہوئے اِس طرح اِدھر اُدھر دیکھے کہ کوئی سُن تو نہیں رہا! یہ بھی بِالکل واضِح قرینہ ہے کہ یہ بات امانت ہے۔ چُنانچِہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِ امانت بنیاد ہے: جب کوئی آدمی بات کر کے اِدھراُدھر دیکھے تو وہ بات امانت ہے۔([xiv])
لہٰذا زبان کی اِس(راز فاش کرنے کی) آفت کا علم اوراس سے اجتناب ضروری ہے کہ خواہی نخواہی ایک مسلمان کو تکلیف پہنچانا ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب دو شخص آپس میں ایک دوسرے کو رازداں بنائیں تو ایک کیلئے دوسرے کا وہ راز فاش کرنا جائز نہیں جس کا فاش ہونا پہلے کو ناگوار گزرے۔([xv])
عہدہ و منصب ایک امانت: ہر چھوٹا بڑا عہدہ اورمنصب ایک امانت ہے یعنی جس کو کوئی عہدہ سپرد کیا جائے تو وہ اپنے عہدے سے متعلق کسی قسم کی کمی کوتاہی اور خلافِ شریعت کام کرکے خیانت نہ کرے، ماتحت افراد کے ساتھ ناانصافی و ظلم نہ کرے، اپنے فرائضِ منصبی اسلامی تقاضوں کے مطابق بخوبی ادا کرے۔ ایک مرتبہ ابوذر غفاری رضی اللہُ عنہ نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کسی عہدے کے متعلق عرض کی تو حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: اے ابوذر! تم کمزور ہو اور یہ (حکومت و منصب) امانت ہے اور قیامت کے دن رسوائی و ندامت ہے سوائے اس کے جو اسے حق کے ساتھ لے اور اس کی ذمہ داریاں پوری کرے۔([xvi])
عہدوں کے امانت ہونے کے ساتھ اس حدیثِ مبارکہ سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص منصب کا خواہش مند ہے جو اس کی ذمہ داریاں نہیں نبھاسکتا تو اسے اس منصب سے باز رکھا جائے گا بلکہ احادیث کی رُو سے زیادہ علم والے اور مقبولِ خداوندی کے بجائے کسی اورکو منصب دے دینے والے کو خیانت کرنے والا بتایا گیا جیسے زیادہ علم والے کے ہوتے ہوئے کم علم کو کسی گروہ کا نگران یا نمائندہ یا نماز کیلئے امام بنادینا۔([xvii]) چنانچہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی جماعت پر ایک شخص کو مقرر کرے اور ان میں وہ ہو جو اس شخص سے زیادہ اﷲ کو پسندیدہ ہے تو بےشک اُس نے اﷲ پاک، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور مسلمانوں سب کے ساتھ خیانت کی۔([xviii])
اسی طرح اگرکوئی ذمہ داری مل گئی تو اس کے تقاضے پورے پورے نِبھائے جائیں کیونکہ اب اس میں بلااجازت شرعی کیا جانے والا تصرف اس امانت میں خیانت کہلائے گا۔([xix]) رسولُ اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! تم میں جو کوئی ہمارے کسی کام پر مقرر ہو اور وہ ایک سوئی یا اس سے بھی کم چیز کو ہم سے چھپائے گا وہ خیانت کرنے والا ہے، قیامت کے دن اُسے لے کر آئے گا۔([xx]) یعنی خیانت اگرچہ معمولی سی چیز کی ہی کیوں نہ ہو تب بھی گناہِ کبیرہ ہے اور خیانت کرنے والے کے لئے توبہ کے ساتھ ساتھ اِس چیز کو واپس کرنا بھی ضروری ہے۔([xxi])
منصبِ امامت و اذان بھی امانت!امام ساری قوم کی نمازوں اور دعاؤں کا امین ہے، اسی لئے ایسے امام کو حدیث میں خائن کہا گیا کہ جو(بعدِ نماز) خاص اپنے لئے دعا کرے اور ان (مقتدیوں) کے لئے نہ کرے۔([xxii]) نیز ایک اور حدیث مبارکہ ہے: اَلْاِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤتَمَنٌ یعنی امام ذمہ دار اور مؤذن امانت دار ہے۔([xxiii]) وضاحت: امام مقتدیوں کی نماز کا ذمہ دار ہے، اور اپنی نماز کے ضمن میں ان کی نمازوں کو لئے ہوئے، (مؤذن امین یوں) کہ لوگوں کی نمازیں اور روزے اس کے پاس گویا امانتیں ہیں۔([xxiv])
شِراکت(Partnership) میں امانت داری: رسولُ اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اﷲ پاک فرماتا ہے کہ میں دو شریکوں (Partners) کا تیسرا ہوتا ہوں جب تک ان میں سے کوئی اپنے ساتھی سے خیانت نہ کرے اور جب خیانت کرتا ہے تو ان کے درمیان سے میں نکل جاتا ہوں(مشکاۃ شریف میں ہے کہ) اور ان کے درمیان شیطان آجاتا ہے۔([xxv]) شرح: یعنی اپنی برکت نکال لیتا ہوں، بے برکتی داخل فرما دیتا ہوں،یہ تجربہ سے بھی ثابت ہے کہ جب تک تجارت میں نیک نیتی سے شرکت رہے بڑی برکت ہوتی ہے اور جہاں نیت خراب ہوئی تو برکت گئی اور دکان کا دیوالیہ ہوا بارہا کا تجربہ ہے۔([xxvi])
میاں بیوی کے معاملات امانت: میاں بیوی ایک دوسرے کے امین ہیں؛ اگر ان دونوں میں سے کسی نے نجی گفتگو یا معاملات کو دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کیا تو خیانت کی جس کے متعلق حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا: قیامت کے دن اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کے پاس جائے، بیوی اس کے پاس آئے اور پھر وہ اپنی بیوی کا راز ظاہر کردے۔([xxvii])
گھر گرستی اور امانت: علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عورت پر واجب ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت اور مال میں خیانت نہ کرے۔([xxviii]) ایک عورت کے لئے شوہر کا مکان اور مال و سامان یہ سب شوہر کی امانتیں ہیں اور بیوی ان سب چیزوں کی امین ہے اگر عورت نے اپنے شوہر کی کسی چیز کو جان بوجھ کر برباد (ضائع)کردیا تو عورت پر امانت میں خیانت کرنے کا گناہ لازم ہوگا اور اس پر خداکا بہت بڑا عذاب ہوگا۔ ([xxix])
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے ذمے آنے والی امانتوں اور ذمہ داریوں کو باخوبی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ اردولغت المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments