برزخ کیا ہے؟

”موت“ انسان کی دُنیوی زِندگی کا آخری  زِینہ(سیڑھی)  ہے جہاں سےاس کا سفر عالَمِ دُنیا سے ٹوٹ کر آخرت کی جانب شُروع ہوجاتا ہے۔ موت کے بعد اِنسان”بَرزَخ“ میں داخل ہو جاتا ہے۔بَرزَخ کا معنیٰ: لُغت میں دو چیزوں کی دَرمیانی آڑ  کو ”بَرزَخ“ کہتے ہیں۔(لسان العرب،ج1،ص268)اِمام المتکلمین، حضرت امام ابومَنصور محمد بن محمد مَاتُرِیدِیحنفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی  فرماتے ہیں:بَرزَخ کی اَصل پَردہ ہے جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے(وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا) ترجَمۂ کنزالایمان:اور ان کے بیچ میں پردہ رکھا(پ19،الفرقان:53-تاویلاتِ اہل السنۃ،ج3،ص418) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) عالَمِ بَرزَخ کیاہے؟ مشہور مُفَسِّر، حضرت امام ابو عبد الله محمد بن احمد قُرْطُبِی علیہ رحمۃ اللہ القَوینقل فرماتے ہیں: وَالْبَرزَخُ مَا بَینَ الدُّنْیا وَالْآخِرَۃِ مِنْ وَقتِ الْمَوتِ اِلَی الْبَعثِ، فَمَن مَّاتَ فَقَدْ دَخَلَ فِي الْبَرزَخِ موت کے وقت سے دوبارہ اُٹھائے جانے تک دُنیا و آخرت کے درمیان بَرزَخ ہے پس جو فوت ہوا وہ بَرزَخ میں داخل ہوا۔( تفسیر ِقرطبی، پ18، المؤمنون، تحت الآیۃ:100،ج6،ص113) بَرزَخ کا ثبوت: قراٰنِ پاک میں ہے:(وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۱۰۰))(پ18، المؤمنون:100) ترجَمۂ کنزالایمان: اور اُن کے آگے ایک آڑ ہے اس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے۔ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) حضرتِ سیِّدُناامام مُجاہد علیہ رحمۃ اللہ الواحِد نے اس آیت  کی تفسیرمیں فرمایا: مَابَیْنَ الْمَوْتِ اِلَی الْبَعْثِ یعنی بَرزَخ موت اوردوبارہ زِندہ کئےجانےکی دَرمیانی مُدّت ہے۔ (تفسیرِطبری،ج 9،ص243) بَرزَخ کے دَرجاتعِلِّیِّیْن“اور ”سِجِّیِّیْن بَرزَخ ہی کے مَقامات ہیں اور ہر ایک میں حَسبِ مَراتِب تَفاوُت ( یعنی فرق) بے شمار۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص456)بَرزَخ کے مُعامَلات: عالَمِ بَرزَخ  میں پیش  آنے والے مُعامَلات سے مُتعلق چند باتیں ذِہن نشین فرما لیجئے:(1)بَرزَخ میں (اپنے اپنے اَعمال کے اِعتبار سے) کسی کو آرام ہےاور کسی کو تکلیف۔ (بَہارِشریعت،ج1،ص98) (2)جواِنعام یا عَذاب بَدَن کو ہوتاہےاس کی لَذّت اور تَکلیف رُوح کو پہنچتی ہے۔ (المُعتقد مع المعتمد، ص 330) (3) عَذابِِ قَبر دَراصل عَذابِِ بَرزَخ ہی کو کہتے ہیں۔اسے عَذابِِ قبر اس لئے کہتے ہیں کہ عُمُوماً لوگ قبر ہی میں دفن ہوتے ہیں۔(4)عُموماًبَرزَخ میں ملنے والے اِنعام یا عذاب کو”قبر کےاِنعام یا عَذاب “سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قَبر میں عَذاب یا اِنعام کے لئے تدفین ہونا ضروری  نہیں  بلکہ جو مُردہ دَفن نہ ہوا بلکہ جلادیا گیایا ڈبو دیا گیایا جسے کوئی دَرِندہ کھا گیا اُسے بھی بَرزَخ یا قبر کے اِنعام  و عَذاب سے واسطہ پڑتا ہے ۔ نبیِّ  پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِِ الْجَنَّةِ اَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِِ النَّارِ یعنی قبر جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ (ترمذی،ج4،ص208، حدیث:2468)مشہور مُفَسِّرِ مفتی احمد یا ر خان علیہ رحمۃ المنَّان فرماتے ہیں:مؤمن کی قَبر میں جَنّت کی خوشبوئیں، وہاں کی تَروتازگی آتی رہتی ہیں۔کافر کی قبر میں دوزخ کی گرمی وہاں کی بَدبُو پہنچتی رہتی ہے۔بُزرگوں کی قَبروں کو اُردو میں رَوضہ کہتے ہیں۔ فُلاں بُزرگ کا رَوضہ۔یہ لفظ اِسی حَدیث سے مَاخوذ ہے یعنی جنّت کا باغ۔(مراٰۃ المناجیح،ص7،ص160) قَبر میں مُومنوں کوملنے والی رَاحت(آرام)،نافرمانوں کو ملنے والی سَزائیں، ضَغْطَۂ قَبر یعنی  قَبر كا مَيّت كو دَبانا اورمُنکَر نَکیر کے سُوالات  برزخ  ہی کے معاملات ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ رکن مجلس المدینۃ العلمیہ،   باب المدینہ کراچی


Share

Articles