روضۂ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حاضری

اسلامی عقائد و معلومات

روضہِ  رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حاضری

*مولانا عدنان چشتی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2023

ہر عقل و شعور اور سمجھ بوجھ رکھنے والا یہ بات جانتا ہے کہ کسی بھی مکان یا جگہ کو جو بھی فضیلت ، مقام ، مرتبہ اور عظمت و بلندی حاصل ہوتی ہے وہ صاحبِ مکان  ( مکان والے )  کی وجہ سے ہوتی ہے ، اسی لئے یہ مثال مشہور ہے کہ ”شَرَفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ“ یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے سے ہوتی ہے۔ قراٰنِ پاک کی ان آیات پر غور کرنے سے بھی یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے جیسا کہ پارہ30 سُوْرَۃُ الْبَلَد کی ابتدائی آیات میں ہے :  ( لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ( ۱ )  وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ( ۲ ) ) ترجمۂ کنزُ الایمان : مجھے اِس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو۔[1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مُفسّرینِ کِرام کا اس بات پر اِجماع ہے کہ یہاں اللہ پاک نے مکّۂ مُکرَّمہ کی قسم ذِکر فرمائی ہے اور اس قسم ارشاد فرمانے کی وجہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اس میں تشریف فرما ہونا ہے۔[2]

یہ بات یاد رہے کہ مکہ شریف کے تمام تر فضائل اپنی جگہ مُسَلَّم ہیں مگر یہاں قسم ذکر فرمانے کی وجہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اُس میں مکین ہونا ہے۔ عقلِ صحیح کبھی بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکتی کہ مکین جتنی عظمت و بزرگی والا ہوگا مکان بھی اتنی ہی رفعت والا ہو جائے گا۔

ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کائنات میں سب سے افضل و اعلیٰ رسول ہیں ، جس مکان کے یہ مکین ہیں تو وہ مکان ان کے قدموں کی برکت پا کر یقیناً افضل و اعلیٰ ہو گیا اور وہ مقام ہے ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک روضہ ، کہ جس پر گنبدِ خضریٰ اپنی بہاریں لُٹا رہا ہے۔ یقینا ًگنبدِ خضریٰ کے مکین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وجودِ مسعود نے اس مقام کو بھی افضل و اعلیٰ بنا دیا اسی لئے اس کی زیارت کرنا ، وہاں جانا افضل عبادات میں سے ہے جیسا کہ حضرت امام محمد بن احمد ابن الضياء حنفی  ( وفات : 854ھ ) حضرت امام عبدی مالکی رحمۃُ اللہ علیہ کا قول لکھتے ہیں : اَن الْمَشْي اِلَى الْمَدِينَة لِزِيَارَةِ قَبْرِ النَّبِي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلّم اَفْضَلُ مِنَ الْكَعْبَةِ وَمِن بَيْتِ الْمُقَدّس یعنی بے شک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مزار شریف کی زیارت کے لئے مدینہ پاک کا سفر کعبۃُ اللہ اور بیتُ المقدس  ( کے سفر )  سے افضل ہے۔[3]

یہی بات علّامہ ابوالحسن سمہودی ، علّامہ محمد بن یوسف صالحی شامی ، علّامہ شمسُ الدّین محمد بن محمد طرابلسی مالکی نے بھی اپنی اپنی کتاب میں نقل فرمائی ہے۔

پوری اُمّت کا اتفاق :

شارحِ بخاری حضرت علّامہ اِبنِ بطال علی قرطبی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبرِانور کی زیارت پر پوری اُمّت کا اجماع ہے اور خطا و غلط کام پر اُمّت کا اجماع ممکن نہیں۔[4]

روضَہِ  رسول کی حاضری کا حکم

 حضرت علّامہ علی بن سلطان قاری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضۂ اطہر کی زیارت بہت بڑی سعادت ، عظیم عبادت ، اللہ کریم کا قُرب پانے کا ذریعہ اور قریب بواجب ہے جس کا حکم کتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے ثابت ہے۔[5]

حضرت مفتی صدرالدین آزردہ دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبرِانور کی طرف سفر افضل مندوب بلکہ واجب کے قریب ہے۔ حضرت قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہ علیہ شفا شریف میں لکھتے ہیں : شَدُّ الرِّحَالِ اِلٰی قَبرِ رَسُولِ اللہ ِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وَاجِبٌ یہاں واجب سے مراد مندوب و ترغیب و تاکید ہے کیونکہ روضَۂ نبوی کی زیارت بڑی نیکی اور بڑی اطاعت ہے اور اعلیٰ درجات تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور جو احادیثِ مبارکہ اس مسئلہ میں ہیں ان میں اہلِ مدینہ اور اس کے قُرب و جوار کی کوئی قید نہیں ( یعنی دور دراز سے سفر کرکے قبرِ نبوی کی زیارت کیلئے آنا کوئی منع نہیں )  ۔حضرت علّامہ احمد قسطلانی  ( رحمۃُ اللہ علیہ )  لکھتے ہیں : جس نے اس کے علاوہ کوئی اور عقیدہ رکھا اس نے اس اسلام کی اطاعت کا طوق اپنی گردن سے اتار دیا۔ اس نے اللہ پاک ، اس کے رسول اور علمائے اعلام کی مخالفت کی۔ بعض علمائے کرام زیارتِ قبرِ نبوی کو قریبُ الوُجوب اور بعض واجب کہتے ہیں۔ جُمہور علمائے احناف کے نزدیک افضل ترین مندوب اور مؤکد ترین مستحب ہے یعنی واجب کے قریب ہے۔ محقق علی الاطلاق حضرت علّامہ ابن ہمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ ہمارے مشائخ کا قول ہے : زِیَارَۃُ قَبْرِہٖ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام مِنْ اَفْضَلِ الْمَندُوبَاتِ مناسکِ فارسی اور شرح المختار میں ہے کہ اِنَّہَا قَرِیْبَۃٌ مِنَ الوُجُوبِ لِمَنْ لَہٗ سِعَۃٌ یعنی جو آدمی طاقت رکھتا ہو اس کے لئے  ( زیارت کرنا )  قریب بواجب ہے۔[6]

قراٰن سے دلیل

روضۂ رسول کی زیارت کے بارے میں دلائل دیتے ہوئے حضرت امام محمد بن احمد ابن الضياء حنفی رحمۃُ اللہ علیہ  ( وفات : 854ھ )  لکھتے ہیں : وَاَمّا نَفْسُ الزِّيَارَةِ فَالْادِلَّةُ عَلَيْهَا كَثِيرَة یعنی روضۂ رسول کی صرف زیارت کے بارے میں ہی بے شمار دلائل موجود ہیں ، پھر یہ آیتِ کریمہ ( وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ( ۶۴ ) )  ( ترجمۂ کنزُ الایمان : اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تواے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں )  [7] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : وَلَا شكّ اَنَّهٗ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حَیّ وَاَنّ اَعْمَالَ اُمَّتِهٖ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيْه یعنی اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حیات ہیں اور آپ کی اُمّت کے اعمال آپ پر پیش کئے جاتے ہیں۔[8]

اوپر ذکر کی گئی آیت پر غور کیا جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آیتِ کریمہ میں موجود حکم عام ہے اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر شفاعت طلب کرنے کا طریقہ بتا یا گیا ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بندوں کو حکم ہے کہ اِن  ( نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )  کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تو ہر جگہ سنتا ہے ، اُس کا علم ، اس کا سننا ، اس کا دیکھنا سب جگہ ایک سا ہے ، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حضور حاضر ہو۔[9]

زیارتِ مبارکہ کے بارے میں 3فرامینِ مصطفےٰ :

 ( 1 ) مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهٗ شَفَاعَتِي یعنی جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔[10]

حاشیہ ابنِ حجر ہیتمی میں ہے : یہ حدیث حیاتِ مبارک میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اور بعد ِوصال قبرِانور کی زیارت کو شامل ہے نیز یہ حکم دور و نزدیک سے آنے والے ہر مَرد و عورت کے لئے ہے۔ پس اس حدیثِ پاک سے روضَۂ انور کی طرف سفر كرنے کی فضیلت اور زیارت کیلئے سفر کے مستحب ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔[11]

 ( 2 ) مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِي بَعْدَ مَوْتِی كَانَ كَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي یعنی جس نے میری وفات کے بعد حج کیا پھر میری قبر کی زیارت کی تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔[12]

 ( 3 ) مَنْ جَاءَنِي زَائِرًا لَا يَعْلَمُهٗ حَاجَةً اِلَّا زِيَارَتِي كَانَ حَقًّا عَلَيَّ اَنْ اَكُونَ لَهٗ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ یعنی جو میری زیارت کو یوں آئے کہ میری زیارت کے سوا اس کی اور کوئی ضرورت نہ تھی تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے دن اُس کا شفیع بن جاؤں۔[13]

صحابہ  کرام کے معمولات :

حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کے غلام حضرت نافع رحمۃُ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کو 100مرتبہ سے بھی زیادہ بار دیکھا کہ آپ روضۂ رسول پر سلام عرض کرنے کے لئے حاضری دیا کرتے۔[14]

حضرت محمد بن مُنکدر رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : رَاَيْتُ جَابِراً وَهُوَ يَبْكِي عَنْدَ قَبْرِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم یعنی ایک بار میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قبرِ انور کے قریب رو رہے تھے اور یوں عرض کر رہے تھے : هٰهُنا تَسْکُبُ الْعَبَرَات یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں ، میں نےرسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا ہے : مَا بَيْنَ قَبْرِي وَ مِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِّن رِيَاضِ الْجَنَّة یعنی میری قبر اورمیرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔[15]

مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ جن دنوں ملکِ شام میں رہا کرتے تھے آپ کو ایک دن خواب میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت ہوئی تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے

ارشاد فرمایا : مَا ہٰذِہِ الْجَفْوَۃُ یَا بِلَال یعنی اے بلال ! یہ بے رُخی کیسی ؟ تم ہم سے ملاقات کرنے نہیں آتے ؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بیدار ہوگئے۔ آپ نے فوراً رختِ سفر باندھا اور اللہ پاک کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کے لئے روانہ ہو گئے۔[16]وفاءُ الوفاء میں ہے : حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہو کر رونا شروع کیا اوراپنا منہ قبر شریف پر ملتے تھے۔[17]

اللہ کریم ہمیں بار بار رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے درِ پاک پر حاضری نصیب فرمائے۔

 اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث المدینۃ العلمیہ ، کراچی



[1] پ30 ، البلد : 1 ، 2

[2] اللباب فی علوم الكتاب ، 20/339

[3] تاريخ مکۃ المشرفۃ والمسجد الحرام والمدینۃ الشریفۃ والقبر الشريف لابن الضياء ، جز1 ، ص 334

[4] شرح صحیح البخاری لابن بطال ، 3/271

[5] مجموع رسائل العلامۃ الملا علی القاری ، 2/197

[6] منتہی المقال بشرح حدیث لاتشد الرحال مترجم ، ص35

[7] پ5 ، النسآء : 64

[8] تاريخ مکۃ المشرفۃ والمسجد الحرام والمدینۃ الشریفۃ والقبر الشريف لابن الضياء ، جز1 ، ص 334

[9] فتاویٰ رضویہ ، 15/654ملخصاً

[10] سنن دارقطنی ، 2/351 ، حدیث : 2669

[11] حاشیۃ ابن حجر الہیتمی على شرح الایضاح ، ص489 ملخصاً

[12] شعب الایمان ، 3/489 ، حدیث : 4154

[13] معجم کبیر ، 12/225 ، حدیث : 13149

[14] الشفا ، 2/86

[15] شعب الایمان ، 3/491 ، حدیث : 4163

[16] اسد الغابۃ ، 1/307ملخصاً

[17] وفاء الوفاء ، 4/1357۔


Share

Articles

Comments


Security Code