ترکی کے شہر”بُرسا“ کی کچھ یادیں (قسط:3)

علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزار شریف کی حاضری کے بعد مغرب سے آدھا گھنٹا پہلے ’’بُرسا‘‘شہر سے واپسی کا سفر شروع ہوا، مغرب کی نماز کشتی میں باجماعت ادا کی۔ ترکی لوگ بڑی محبت اور خوشی سے نماز پڑھتے دیکھتے رہے اور ہمیں دیکھ کر اُن میں سے بھی بعض شریک ِ جماعت ہو گئے ۔رات تقریبا ًنو بجے کے قریب واپسی ہوئی۔ گیارہ بجے تک نماز ِ عشاء وغیرہ سے فارغ ہوکر آرام کےلئے بستر پر لیٹے لیکن اِس خبر سے نیند اُڑتے اُڑتے رہ گئی کہ ساڑھے تین گھنٹے بعد دوبارہ اٹھنا ہے کیونکہ ہمارے مہربانوں نے وقت ِ تہجدو سحر کی فلائٹ میں ٹکٹیں بُک کروائی ہوئی تھیں اور صبح ہمیں ’’شانلی عُرفا‘‘نامی شہر جاناتھا ، جس کےلئے پانچ بجے کی فلائٹ پکڑنے کو تین بجے ائیر پورٹ پہنچنا تھااوراس کے لئے آدھا گھنٹا پہلے اٹھ کر نہا دھوکر، کپڑے بدل کر تیار ہونا تھا،کیا شاندار جَدوَل تھا کہ ہر پندرہ سولہ گھنٹے کے بعد پورے تین گھنٹے کا آرام تھا لیکن خیر سفر، سفر ہوتا ہےاور صاحبانِ عزیمت کے ساتھ سفر کرنا ہو تو عیش تو دور کی بات ہے رخصت سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے،البتہ اِس بات سے دل کو ڈھارس بندھتی تھی کہ راہِ خدا میں آنے والی مشقتیں، گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا سبب بھی تو بنتی ہیں، چنانچہ کوشش کرکے اچھی اچھی نیتیں کیں اورپھر وقت پر بیدار ہوئے تو کچھ اسلامی بھائیوں نے تہجد پڑھنے کی سعادت حاصل کی اور تیاری کرکے ائیر پورٹ پہنچے۔ استنبول کا ائیر پورٹ دنیا کے بڑے ہوائی اڈوں میں سے ہے اوربہت مصروف رہتا ہے۔ جہاز میں جانے تک نمازِ فجر کا وقت شروع نہیں ہوا تھا ، جہاز رَن وے پر دوڑنے لگا تو فجر کا وقت شروع ہوا لہٰذا ہوا میں بلند ہوتے ساتھ ہی تمام شرکاء ِ قافلہ نے نمازِ فجر اداکی ۔

’’عُرفا‘‘ شہر پہنچ کر ائیر پورٹ سے باہر نکلے تو تھوڑی دیر بعد ترکی میزبان کے ساتھ دو گاڑیوں میں سُوئے منزل روانہ ہوگئے، گاڑیاں چھوٹی بلکہ ان میں ایک توزیادہ ہی چھوٹی تھی جبکہ مسافر گنجائش سے زیادہ تھے، قیام گاہ تک کا سفر تقریباً آدھے گھنٹے سے زائد تھا،بہت پھنس پھنسا کر تمام افراد گاڑی میں بیٹھے اور بعد از مشقت ِ بسیار منزل تک پہنچے۔ نیند اور تھکاوٹ سے یہ حالت تھی کہ دماغ پوری طرح کام نہیں کررہا تھا اور تقریباً سب کا یہی حال تھا۔ میزبان نے ناشتے کا پوچھا تو تقریباً سب کاقولی یا عملی متّفقہ جواب یہ تھا کہ ہمیں دنیا کی عظیم نعمت نیند سے لطف اندوز ہولینے دیں، باقی ہر کام بعد میں۔ ہماری حالت دیکھ کر میزبان نے مُسکرا کر سونے کی اجازت دیدی۔ ایک ہی کمرے میں محمود و ایاز، شاہ و گدا اور امیر و غریب سب محو ِ استراحت ہوگئے۔ درمیانے سائز کے ایک کمرے میں ہم تقریباً دس گیارہ افراد تھے، دن کے نو بجے کا وقت تھا، شیشے کی کھڑکیوں کے سامنے آدھے لٹکتے ہوئے پردے سورج کی روشنی کو براہ ِ راست آنکھوں میں گھسنے سے روکنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔ میں تو سوگیا لیکن تاریکی میں سونے کے عادی اسلامی بھائی بشمول نگرانِ شوریٰ شب بیداری نہیں بلکہ دن بیداری کا لطف اٹھاتے، کروٹیں بدلتے رہے۔ خیر ،بارہ بجے سو کر اٹھے تو کاموں کی ایک پوری فہرست سامنے تھی۔ مختلف زیارات کی حاضری کے علاوہ کچھ عُلماء سے ملاقاتیں اور شامی مہاجرین کے خیموں کا وِزِٹ کرنا تھا۔ چنانچہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دورانِ مرض قیام گاہ اور چشمہ ِ شفا کی زیارت کی اور بطورِ تبرک اس چشمے کا پانی بھی بوتلوں میں بھر لیا،وہیں ظہر کی نماز بھی ادا کی۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  جس مقام پر آگ میں ڈالے گئے وہ اور جہاں سے منجنیق کے ذریعے آپ کو ڈالا گیا ان جگہوں کو بھی دیکھا ۔ ایک بزرگ جیّد عالم ِ دین کے گھر حاضری ہوئی جنہیں عربی ویڈیوکے ذریعے دعوت ِ اسلامی کا تعارف کروایا گیا ، وہ بہت مسرور ہوئے، دعائیں دیں اور بہت عاجزی کا اظہار کرتے رہے۔ شامی مسلمانوں میں مدنی کاموں کے حوالے سے مفید مشورے بھی دئیے۔شامی مہاجرین سے ملاقات کےلئے ایک مسجد میں مغرب کی نمازپڑھی جہاں بعد ِ نماز نگرانِ شوریٰ نے بیان کیا اور ترکی و عربی زبان میں اس کا ترجمہ بھی مسلسل ہوتا رہا۔ بیان اور اس کے بعد طعام سے فراغت کے بعدرات تقریبا ًایک بجے استنبول واپسی ہوئی۔ اگلے دن دوبارہ صبح نو بجے مفتی ِ استنبول سے ملاقات کےلئے نکلے۔وہاں بھرپور پروٹوکول تھا ، ہمارا نہیں بلکہ مفتی ِ استنبول کا، چنانچہ پہلے وہاں کے سیکرٹری پھر نائب مفتی سے ملاقات اور مقصد ِ آمد بیان کرنے کے بعدمفتی صاحب سے اچھے خوشگوار ماحول میں تقریباً ایک گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔انہیں دعوتِ اسلامی کا تعارف کروایاگیا۔ شام تک دیگر کچھ مصروفیات کے بعد رات کی فلائٹ سے جرمنی کےلئے روانہ ہوئے۔

(بقیہ اگلے شمارے میں)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭ دار الافتاء اہلِ سنّت فیضان مدینہ ، باب المدینہ کراچی

 


Share